فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ہمارے لئے بھی ناجائز ہوجاتا ہے، جب کہ دوسروں پر اس کا اثر برا پڑتا ہو۔ پس اگر آپ کو مسلمانوں سے محبت اور ہمدردی ہوتی تو ایسا کبھی نہ کرتے، بلکہ یہ سوچتے کہ میں تو کروں گا اس وجہ سے کہ مجھ کو وسعت (گنجائش ) ہے، اوردوسرا غریب بھائی کرے گا برابری کا دعوی کی وجہ سے اور وہ ہوجائے گا تباہ، لہٰذا میں ہی ہاتھ روک لوں اگر محبت و ہمدردی ہوتی تو اپنے بھائیوں کو ضرور تباہی سے بچایا جاتا۔۱؎پسندیدہ اعمال کو بدنامی اور لوگوں کی ملامت کی وجہ سے کرنے یا نہ کرنے کا شرعی ضابطہ ایک اہل علم نے سوال کیا کہ اگر کوئی فعل شرعاً فی نفسہ تو قبیح نہ ہو بلکہ محمود اورمستحسن ہو لیکن عوام اپنے نزدیک اس کو برا اور مذموم سمجھتے ہوں اور اندیشہ ہو کہ اگر اس فعل کو کیا جائے گا تو عوام بد گمان ہوں گے اور اس کو بدنام کریں گے تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ آیا مخلوق کی ملامت اور طعن کی پرواہ نہ کرے اور اس کام کو کرلے یا ملامت اور بدنامی کے خوف سے اس فعل سے اجتناب کرے؟ حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ اسی سوال کا جواب مولانا قاسم صاحب نے ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ اس کا فیصلہ کرنا حکیم ہی کا کام ہے، ایسی صورت میں نہ تو علی الاطلاق اس فعل کو منع کرسکتے ہیں اور نہ ہی علی الاطلاق اس کی اجازت دے سکتے ہیں بلکہ کتاب وسنت میں نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر تفصیل ہے: چنانچہ اس وقت دو واقعے بیان کرتا ہوں کہ وہ دونوں واقعے ایسے تھے کہ ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کرنا چاہئے تھا کیونکہ عوام الناس کے نزدیک قابل ملامت تھے مگرایک مقام پر حق تعالی نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کو باقی رکھا اور دوسرے ------------------------------ ۱؎ نقد اللبیب فی عقد الحبیب ملحقہ مواعظ میلاد النبی ص:۵۸۵ تا ۵۹۵