فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
کریں اور پھر حمل رہ جائے تو ممکن ہے کہ ہر ایک ان میں سے اپنے نسب کا دعوی کرے تو اس صورت میں ان میں سخت جنگ وجدال کا اندیشہ ہے ، اور ممکن ہے کہ ہرایک انکار کردے تو اس صورت میں اس عورت اور بچے پر سخت مصیبت ہوگی۔ اس کے بعد میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی ایسی تدبیر کرے کہ علوق کا احتمال ہی نہ رہے مثلاً کوئی ایسی دوائی کا استعمال کرلی یا کوئی عورت سن ایاس کو پہنچ گئی یا مثلاً زانیوں کی کسی خاص جماعت میں محبت واخوت ہوجائے جس سے احتمال جنگ وجدال کا نہ رہے تو اس صورت میں زنا جائز ہوجانا چاہئے کیونکہ وہ علت یہاں مرتفع ہے اور دوسرے کا حق متعلق نہیں تو اس میں کیا قباحت ہے؟ تو کیا زنا جائز ہوجائے گا؟ ہر گز نہیں حالانکہ جو علت بتلائی گئی ہے وہ مرتفع ہے۔۱؎ہر ایک کو حکم کی علت دریافت کرنا صحیح نہیں حاکم کی طرف سے کوئی حکم صادر ہوتو ہرگز (اس حکم) کی علت نہیں پوچھتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکام کی عظمت ہے اس لئے حجت نہیں کرتے سو جب خدا تعالی کے احکام کی علل دریافت کی جاتی ہے اس سے تو شبہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں حق تعالی کی عظمت نہیں ہے، غرض محکوم ہونے کی حیثیت سے علل دریافت کرنا عقلاً بیہودہ امر ہے، ہاں طالب علمی کی حیثیت سے بغرض تحقیق فن مضائقہ نہیں مگر وہ منصب صرف طالب علموں کا ہے، خیال تو کیجئے کہ کلکٹر کا منادی جب حکم کی اطلاع کرتا ہے تو کوئی علت نہیں پوچھتا، افسوس ہے کہ کیا علماء کو بھنگی سے بھی زیادہ ذلیل سمجھنے لگے ہیں ، علماء در حقیقت منادی کرنے والے اور احکام کے ناقل ہیں خود موجد نہیں اس لئے ان سے علتیں پوچھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ ۲؎ ------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ص ۹۹، دعوات عبدیت ۱۴؍۱۲ ۲؎ اشرف الجواب ص ۲۵ج۳