فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
قاعدہ الشئی اذا ثبت ثبت بلوازمہ کی تشریح قاعدہ مسلمہ ہے الشیء اِذَا ثَبت ثبَت بلَوَازمہ اس قاعدہ میں کسی عاقل کو کلام نہیں ، بالکل ظاہر بات ہے میں اس کے متعلق چند مرتبہ مثالیں پیش کر چکا ہوں ، ایک بہت ظاہر مثال اس وقت بھی عرض کرتا ہوں مثلاً کسی شخص کا نکاح کیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ تم نے فلاں لڑکی کو اتنے مہر پر قبول کیا؟ وہ کہتا ہے قبول کیا، ظاہر ہے کہ اس کے معنی بلاشبہ یہی ہوتے ہیں کہ میں نے مکان دینا بھی قبول کیا، کھانا کپڑا بھی قبول کیا اور بھی تمام اخراجات بی بی کے قبول کئے، اوریہ معنی اسی قاعدہ کی بناء پر ہیں ، الشیء اِذا ثبت ثبت بلوازمہ۔ اب فرض کیجئے اس ناکح کو چند روز بعد ماں باپ نے علیحدہ کردیا کہ کماؤ کھاؤ جب علیحدہ ہوئے تو بی بی نے کہا کہ گھی چاہئے آٹا چاہئے دسوں قسم کے جھگڑے بتلادیئے اس نے سن کر کہا کہ نکاح میں یہ کب ٹھہرایا تھا کہ یہ بھی لاؤں گا اور وہ بھی لاؤں گا، اس کا تو ذکر تک بھی نہ ہوا تھا نہ اس کو میں نے قبول کیا تھا، غرض تکرار بڑھا۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کے سامنے ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہو اور آپ جج ہوں تو آپ کیا فیصلہ کریں گے، ظاہر ہے کہ آپ یہی فیصلہ کریں گے کہ یہ جملہ ضروریات اس کے ذمہ ہیں ، اور کسی عورت کو نکاح میں قبول کرنے کے معنی یہی ہیں کہ میں نے آٹا لانا بھی قبول کیا کھانا کپڑا دینا بھی قبول کیا،جملہ ضروریات قبول کیں نکاح کے قبول کرنے میں یہ سب چیزیں بھی آگئیں ۔ بس اسی طرح لاالہ الاﷲ کے معنی سمجھ لو کہ جس نے لاالہ الاﷲ کا اقرار کیا تو اس میں یہ سب اقرار بھی آگئے کہ نماز بھی پڑھوں گا، روزہ بھی رکھوں گا، زکوۃ بھی دوں گا، حج بھی کروں گا، تمام احکام کا اقرار اسی میں آگیا۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ العاقلات الغافلات ملحقہ حقوق الزوجین ص ۳۱۸