فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
مباح کی تعریف اور اس کا شرعی حکم اصول شرعیہ اور نیز قواعد عقلیہ میں یہ امر مسلم ہے کہ جو فعل نہ مامور بہ ہونہ منہی عنہ یعنی نصوص شرعیہ میں نہ اس کے کرنے کی ترغیب ہو اور نہ اس کے کرنے کی ممانعت ، ایسا امر مباح ہوتا ہے ۔ اور ہرچند کے مباح اپنی ذات میں نہ طاعت ہے نہ معصیت ،مگر عوارضِ خارجیہ کے اعتبار سے ممکن ہے کہ کبھی وہ طاعت بن جائے ،کبھی معصیت ہوجائے ،مثلاً چلنا کہ ایک فعل مباح ہے نہ اس پر ثواب نہ عذاب ، مگر ممکن ہے اس میں کوئی ایسی مصلحت ومنفعت ہو جس سے یہ عبادت ہوجائے ،مثلاً مسجد یامجلسِ وعظ کی طرف چلنا یاکسی کی عیادت یاتعزیت کے لئے چلنا اور ممکن ہے کہ اس میں کوئی ایسی مضرت مفسدہ ہو جس سے یہ معصیت ہوجائے مثلاً ناچ دیکھنے کو چلنا یاشراب خوری کے لئے چلنا ۔مضرت و مفسدہ کی دو قسمیں لازم و متعدی اور یہ بھی جاننے کی بات ہے کہ مضرت مفسدہ دوقسم کا ہے لازمی ،ومتعدی، لازمی وہ ہے جس سے خود فاعل کو ضررپہونچے، متعدی وہ جس سے دوسروں کو ضرر پہونچے، سوجس طرح فعل مباح لازمی ضرر کی وجہ سے واجب المنع ہوجاتا ہے اسی طرح ضررمتعدی کے مرتب ہونے کی وجہ سے بھی ممنوع ہوتا ہے ،مثلاً کوئی ایسا مریض جس کا مرض محسوس نہیں اور طبیب نے اس کو افطار ِصوم کی اجازت دے دی ،گواس کو کھاناہ پینا علی الاعلان(یعنی لوگوں کے سامنے ) فی نفسہٖ جائز ہے مگر جس مقام پر یہ احتمال ہوکہ کوئی دوسرا شخص یہ حالت دیکھ کر روزہ کی بے وقعتی کرکے اپنا روزہ تباہ کرے گا اس مقام پر یہ امر جائز بھی نا جائز بن جائے گا، بلکہ اس کا اخفاء ضروری ہوگا اور یہ امر بہت ہی ظاہر ہے ۔ اب دوسرا قاعدہ سمجھنے کے قابل ہے کہ بعض افعالِ مباحہ تو ایسے ہوتے ہیں جن میں سراسر مصلحت ہی مصلحت ہے اس کے مستحسن ہونے میں سب کا اتفاق ہوتا ہے۔