فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
البتہ امردنیوی میں بھی جہاں جس ظن کی ممانعت ہے وہاں اس پر عمل جائز نہیں ، مقصود یہ ہے کہ دین کے بارے میں گمان اصلاً کوئی چیز نہیں خواہ وہ گمان کرنے والا کتنا بڑا ہی ذہین ہو اور عاقل ہو، دین کے بارے میں جب تک دلیل شرعی نہ ہوگی اس کا خیال معتبر نہ ہوگا۔۱؎ظن کے اقسا م واحکام ظن کی کئی قسمیں ہیں ایک واجب جیسے ظن فقہی غیر منصوص میں اور حسنِ ظن مع اللہ، اور دوسرا مباح جیسے ظن امور معاش میں ، اور ایسے شخص کے ساتھ بد گمانی کرنا جس میں علانیہ علامات فسق کے پائے جاتے ہیں ، جیسے شراب خانوں میں اور فاحشہ عورتوں کی دکانوں میں کسی کی آمد روفت ہو اور اس پر فسق کا گمان ہو جائے جائز ہے مگریقین نہ کرے۔ اسی طرح سوء ظن غیر اختیاری ہو اس کے مقتضی پر عمل نہ ہو اس میں بھی گناہ نہیں بشرطیکہ حتی الامکان اس کو دفع کرے، اور تیسرا حرام جیسے الہیات ونبوات میں بلا دلیل قاطع، کلامیات وفقہیات میں خلاف دلیل قاطع ظن کرنا یا جس میں علامات فسق کے قوی نہ ہوں بلکہ ظاہراً اصلاح کے آثار نمودار ہوں اس کے ساتھ سوء ظن کرنا یہ حرام ہے۔۲؎معاملات میں سوء ظن کا حکم سوئِ ظن کے مقتضی پر عمل کرنا مظنون بہ کے حق میں تو حرام ہے جیسے اس کی تحقیر کرنا، اس کو ضرر پہنچانا (لیکن ) خود ظان کو اپنے حق میں جائز ہے، بایں معنی کہ اس کی مضرت سے خود بچے۔۳؎ فرمایا کہ معاملات میں تو سوء ظن چاہئے اور اعتقاد میں حسن ظن اور معاملات ------------------------------ ۱؎ الغاء المجازفۃ ملحقہ دعوات عبدیت ۱۶؍۱۳ ۲؎ بیان القرآن ۱۱؍ ۴۷ ۳؎ بیان القرآن ص ۴۷ ج۱۱