فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ظنی ہونے کا مقتضیٰ ظنی ہونے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ جانب مخالف کا اس میں شبہ رہتا ہے اگر تمہیں شبہ ہے تو ہوا کرے اس سے مسئلہ کی ظنیت کی تاکید وتقویت ہوتی ہے، ایسے شبہ سے کچھ حرج نہیں ۔۱؎حسن ظن کا آخری مرحلہ منتہاء حسن ظن یہ ہے کہ خود اس کے فعل میں تاویل مناسب کرکے اس کو قواعد شرعیہ کے تابع بنادے نہ یہ کہ شریعت میں تبدیل کرکے شریعت کو اس کے تابع بنادے۔۲؎ظن کے محمود ومذموم اور مقبول وغیر مقبول ہونے کا معیار إنَّ الظَّنَّ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا، اہل علم کو اس مقام پر شبہ ہوجایا کرتا ہے کہ شریعت میں تو ظن کا اعتبار کیا گیا ہے، چنانچہ خبر واحد اور قیاس ظنی ہے ۔ (اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ) ظن وہ معتبر ہے جس کا استناد نص کی طرف ہو چنانچہ خبر واحد جو ظنی ہے وہ تو اصل ہی میں ظنی الثبوت نہیں ہے محض اس کی سند میں ظن عارض ہوگیا ہے ورنہ بحیثیت کلامِ رسول ہونے کے وہ فی نفسہ قطعی ہے، اسی طرح قیاس گو اصل ہی میں ظنی ہے لیکن وہ خود مثبت نہیں ہے، بلکہ مظہر ہے اور مثبت تو نص ہے اور قیاس اس کی طرف مستند ہے اور یہاں جس ظن پر ملامت ہے اس سے مراد وہ ظن ہے جس کا مستند نص نہ ہو محض تخمین اور رائے اس کا منشاء ہو۔ نرا گمان جو دلائل شرعیہ سے ماخوذ نہ ہو وہ مثبت نہیں تاوقتیکہ اس ظن کا کوئی مستند شرعی ہو دین کے بارے میں کار آمد نہیں ، دین کی قید اس لئے لگائی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی امر میں کوئی گمان مفید نہ ہو، چنانچہ طب میں کہ وہ دین کا امر نہیں ظن معتبر ہے۔ ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص ۱۷۲ ۲؎ بوادرالنوادر ۱؍ ۱۹۱