فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
شرعی قدرت واستطاعت کی تعریف وتقسیم خوب سمجھ لیجئے کہ قدرت کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ جو کام ہم کرنا چاہتے ہیں اس پر توہم کو قدرت ہے لیکن اس کے کرلینے کے بعد جن خطرات کا سامنا ہوگا ان کے دفع کرنے پر قدرت نہیں ، دوسرے یہ کہ فعل پر بھی قدرت ہے، اور اس کے کرلینے کے بعد جو خطرات پیش آئیں گے ان کی مدافعت پر بھی قدرت ہو، پہلی صورت استطاعتِ لغویہ ہے اور دوسری صورت استطاعت شرعیہ ہے خوب سمجھ لیجئے گا۔ اور مدافعت کی فرضیت کے لئے پہلی استطاعت کافی نہیں بلکہ دوسری استطاعت شرعیہ شرط ہے جس کو اس حدیث نے صاف کردیا ہے۔ من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ۔ ظاہر ہے کہ استطاعت باللسان ہر وقت حاصل ہے پھر اس کے انتفاء کی تقدیر کب محقق ہوگی، یعنی اگر کسی فعل کی فرضیت کے لئے محض فعل پر قادر ہونا کافی ہو، اور اس سے جو خطرات پیش آنے والے ہوں ان کی مدافعت پر قادر ہونا، شرط نہ ہو تو زبان سے انکار کرنا ہر حالت میں فرض ہونا چاہئے کیونکہ زبان کا چلانا ہر وقت ہماری قدرت میں ہے پھر وہ کون سی صورت ہوگی جس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر زبان سے مٹانے کی قدرت نہ ہوتو دل سے مٹادے۔ اس سے ثابت ہوا کہ استطاعت سے مراد یہ ہے کہ اس فعل پر قدرت ہونے کے ساتھ اس میں ایسا خطرہ بھی نہ ہو جس کی مقاومت اور مدافعت ومقابلہ بظن غالب عادۃً ناممکن ہو، ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس دفاع کے بعد اس سے زیادہ شر میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ : ۱؍ ۱۱۰، وافادات اشرفیہ ص ۱۰، ملفوظات اشرفیہ ص ۹۷