فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ محقق کی نظر بہت وسیع ہوتی ہے و ہ حقیقت کا جویاں ہوتا ہے لایعنی باتوں میں نہیں پڑتا، صحابہ کی شان بھی یہی تھی۔۱؎ محققین کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں اور حقیقت کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں سب پہلوؤں کا احاطہ خدا کا کام ہے تو ایک ایک پہلو پر نظر جاتی ہے اس لئے ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتا، وسیع النظر اتنا ہوتا ہے کہ دوسرے محقق کی نسبت کوئی برا لفظ بھی کہنا پسند نہیں کرتا، ائمہ مجتہدین کا اختلاف اسی قسم کا ہے۔ اور ایک شان محقق کی یہ ہوتی ہے کہ فضول مباحثہ سے بچتا ہے اور غیر محقق اور غبی سے (محققانہ) گفتگو نہیں کرتا بلکہ اگرغبی سے گفتگو ہوتو ذرا میں خاموش ہوجاتا ہے، جس کو عوام ہارنا سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کے پاس دلیل نہیں ہے بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ناحقیقت شناس (اور غبی )کو سمجھانا وہ مشکل سمجھتا ہے۔۲؎ لغۃ تو ہر شخص مجتہد سہی لیکن وہ مجتہد جس پر احکام اجتہاد جاری ہوسکیں اس کے واسطے کچھ شرائط ہیں جن کاحاصل شریعت جس کے اصول وماخذ چار ہیں قرآن، حدیث، اجماع قیاس، کے ساتھ ایک خاص ذوق حاصل ہوجانا ہے۔۳؎ہماری اورفقہاء کی مثال فقہاء بھی اپنی تحقیق پر ضابطہ کے دلائل بیان کرتے ہیں مگران دلائل کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھوں والا عصا لے کرچلے تو اس کا چلنا عصا پر موقوف نہیں فقہاء کو حق تعالیٰ نے آنکھیں عطا فرمائی تھیں جس کو ذوق اجتہادی کہتے ہیں ان کو ضرورت ان عصاؤں کی نہ تھی مگر ہم کو ضرورت ہے۔ ہماری مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا، اس کے سہارے کا مدار ہی عصا پر ہے اگر وہ عصا لے کر نہ چلے تو وہ خندق میں گرے۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ حسن العزیزص۳۶۲ج۴ ۲؎ حسن العزیز ص ۳۴۷ج۴ ۳؎ حسن العزیز ۴؍ ۳۵۶ ۴؎ الافاضات ۱؍ ۷۳