فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
احکام میں اعتبار اکثر کا ہوتاہے جس جائز عمل سے عوام کے فتنے اور مفسدہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو خواص کے لیے بھی وہ عمل ممنوع ہوجاتا ہے یہ قاعدہ ہے کہ انتظامی احکام میں جو مفاسد سے بچانے کے لئے ہیں اعتبار اکثر ہی کا ہوتا ہے اور اکثر کی حالت پر نظر کرکے حکم عام دیا جاتا ہے اور یہی معنی ہیں فقہاء کے اس قول کے کہ جس امر میں عوام کو ایہام (فساد) کا اندیشہ ہو تو وہ خواص کے حق میں بھی مکروہ ہوتا ہے اور اس قاعدہ کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ (۱) عن جابر عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم حِیْنَ اَتَاہ عُمر فقال اِنَّا نَسْمَعُ اَحَادِیْثَ من یَہُوْد تعجبُنا اَفَتَرٰی ان نکتب الخ۔ (مشکوۃ) چونکہ ان مضامین کے لکھنے میں اکثر لوگوں کی خرابی کا اندیشہ تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو ممانعت فرمادی، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فہیم اور صلب فی الدین شخص کو بھی اجازت نہیں دی، اس سے معلوم ہوا کہ جس امر میں فتنہ عام ہوا س کی جازت خواص کو بھی نہیں دی جاتی بشرطیکہ وہ امر ضروری فی الدین نہ ہو۔ (۲) عن شقیق قال کان عبداﷲ بن مسعود یذکر الناس فی کل خمیس فقال الرجل یا ابا عبد الرحمن لوددت انک ذکرتنا فی کل یوم الخ۔(مشکوۃ شریف) ظاہر ہے کہ سننے والوں میں سب تو اکتا نے والے نہ تھے، چنانچہ خود سائل کے شوقِ کلام سے معلوم ہوتا ہے لیکن اکثر طبائع کی حالت کا اعتبار کرکے آپ نے سب کے ساتھ ایک ہی معاملہ کیا اور یہی عادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی تھی، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے عمل سے اس قاعدہ کا ثبوت ہوگیا۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۱۰؍ ۱۵۶