فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اصول فقہ کی حیثیت نصوص متعارضہ میں ایک کی ترجیح ذوقِ مجتہدین سے ہوئی ہے باقی جو قواعد کہ کتب اصول میں مذکور ہیں ان کا تو کہیں اس وقت نام ونشان بھی نہ تھا ، مگر علماء نے انسداد مفاسد کے لئے ان اصول کو مجتہدین ہی کی فروع سے نکالا ہے، تاکہ ہر کسی کو اجتہاد میں آزادی نہ ہو تو گویا یہ اصول ان مسائل پر متفرع ہیں مسائل ان پر متفرع نہیں ، نیزا اس میں ضبط بھی سہل ہے۔۱؎متقدمین اور متاخرین کے اصول کا فرق مجتہدین میں ایک مخصوص بات یہ ہوتی ہے، کہ وہ نصوص سے ایسے اصول کو مستنبط کرتے ہیں کہ وہ اصول ٹوٹتے نہیں اور جو اصول متاخرین نے مجتہدین کی تفریعات سے استنباط کئے ہوئے ہیں وہ ٹوٹ جاتے ہیں ۔۲؎ =ٰ وجوب اتباع الرسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ولٰکن اذا وجدلواحد منہم قول قدجاء حدیث صحیح بخلافہٖ فلابدلہ‘ من عذر فی ترکہٖ ،وجمیع اعذار ثلاثۃ اصناف ، احدہا عدم اعتقادہٖ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قالہ‘ والثانی عدم اعتقادہٖ ارادۃ ذالک المسئلہ بذالک القول والثالت اعتقاد ان ذالک الحکم منسوخ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ص۳۲۱ج ۲۰) وفی کثیر من الاحادیث یجوز ان یکون للعالم حجۃ فی ترک العمل بالحدیث لم نطلع نحن علیہا، فان مدارک العلم واسعۃ ،ولم نطلع علیٰ جمیع مافی بواطن العلماء ،والعالم قد یبدی حجتہ‘ وقد لایبدیہا ،واذا ابداہا فقد تبلغنا وقد لا تبلغ، واذا بلغنا فقد ندرک موضع احتجاجہٖ وقد لاندرکہ‘، سواء کانت الحجۃ صواباً فی نفس لأمرأم لا ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ص۲۵۰ج ۲۰) أن حکم اللہ واحد وأن من خالفہ‘ باجتہاد سائغ مخطیء معذور ماجور ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ص۸۶۲ج ۲۰) ------------------------------ ۱؎ الکلام الحسن ص:۱۲۳ ۲؎ الکلام الحسن ص ۴۲