فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
جولوگ متبع سنت ہیں اور اپنی ہی جماعت کے ہیں ان کے یہاں بھی بس یہی دوچارچیزیں بدعت ہیں جیسے مولدکاقیام، عرس، تیجا، دسواں ، اس کے علاوہ جواور چیزیں بدعت کی تھیں انہیں وہ بھی بدعت نہیں سمجھتے، چاہے وہ بدعت ہونے میں ان سے بھی اشدہوں ، مثلاً بیعت ہی کو دیکھئے جس ہیئت اور جس عقیدہ سے آج کل لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں وہ بالکل بدعت اور غلط عقیدہ ہے ،لیکن کسی سے کہیں تو سہی، اپنی ہی جماعت کے لوگ مخالفت پر آمادہ ہوجائیں ،ایسے ہی ایک دوسری غلطی ہے کہ ذکر کو اصلاح کیلئے کافی سمجھتے ہیں ۔۱؎کیا بیعت کو بالکل موقوف کردینا چاہئے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جب بیعت بدعت ہے تو اس کو قطعاً ترک کردینا چاہئے فرمایا کہ بیعت بدعت نہیں بیعت کو ضرروی سمجھنا بدعت ہے، میں نے یہ نہیں کہا کہ بیعت بدعت ہے میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ بیعت کو ضروری سمجھنا بدعت ہے۔ فرمایا: میں مستحب کو بدعت نہیں کہتا اس کو ضروری سمجھنے کو بدعت کہتا ہوں اگر مستحب کو کوئی واجب سمجھ جاوے تو کیا یہ بدعت نہیں ہے، بیعت کو لازم اور ضروری سمجھاجاتا ہے اور لازم ، ضروری ، واجب کے ایک ہی معنی ہیں بس یوں کہنا چاہئے کہ بیعت سنت مستحبہ غیر ضروریہ ہے اگر کوئی فعل مستحب ہے مگر اس کو ضروری سمجھنے لگیں تو یہ بدعت ہے، ہم بیعت کے استحباب کا تو انکار نہیں کرتے۔ اب سنئے دوسرا قاعدہ فقہاء نے لکھا ہے کہ مستحب فعل سے اگر فساد ہوجائے عقیدہ میں تو اس مستحب کو چھوڑ دینا ضروری ہے اب اس تقریر کے بعد بیعت کو چھوڑنا ضروری ثابت ہوا۔ (اور ایک تیسرا قاعدہ بھی سنئے) محض قولی اصلاح کافی نہیں عملی اصلاح کی ------------------------------ ۱؎ افاضات الیومیہ ص۱۳ج دہم