فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
بزرگوں اور مشائخ کی سنتوں اور ان کے معمولات کی شرعی حیثیت اگر کوئی (بزرگ) صاحب معمولات بھی ہو تو اس کے معمولات کی تفتیش اس لیے بھی عبث ہے کہ اتباع امتی کے افعال کا نہیں ہوتا صرف انبیاء علیہم السلام کے افعال کا ہوتا ہے، یا جس کے افعال کے اتباع کا سنت میں امر وارد ہوا ہو جیسے حضرات خلفائے راشدین یا اکابر رضی اللہ تعالیٰ عنہم مثلاً غرض استثناء مذکور غیر نبی کی تعلیمات قولیہ کا اتباع ہوتا ہے نہ کہ اس کے معمولات فعلیہ کا کیونکہ ممکن بلکہ غالب ہے کہ اس کے معمولات فعلیہ اس کی خصوصیات میں سے ہوں اور وہ اتباع کرنے والے کے مناسب حال نہ ہوں ، اسی طرح اگر کسی صاحب معمولات کے معمولات اس کی خصوصیت حال کی وجہ سے کم ہوئے تب بھی ان کا اتباع دوسروں کو مضر ہوگا مثلاً کتابوں میں لکھا ہے کہ ابتدال کی نماز بہت مختصر ہوتی ہے مگر بلا نقص اور ان کے ظاہری اعمال نافلہ بھی بہت کم ہوتے ہیں تو جو اس درجہ کا نہ ہوگا اس کیلیے معمولات کی یہ کمی مضر ہوگی۔ بہر حال کسی کے معمولات فعلیہ کا اتباع (مطلقاً) نہیں چاہئے اور جب اتباع نہیں کرنا تو پھر پوچھنا بھی ایک فعل عبث ہے بکلہ اس تفتیش میں صاحب معمولات کے انقباض کا احتمال ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اپنی بعض عبادات کو اوروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہو اس لیے (بزرگوں کے معمولات کی) تفتیش نہیں چاہئے اتفاق سے علم ہوجائے تو اور بات ہے لیکن اس صورت میں بھی بلاپوچھے ان پر عمل ہرگز نہ کرے البتہ انبیاء کے اقوال و افعال سب متبوع ہیں تا وقتیکہ کوئی تخصیص کی دلیل قائم نہ ہو۔۱؎ حضرات انبیاء علیہم السلام کے افعال کا تو اتباع ہوسکتا ہے۔ امتی کا فعل حجت نہیں ہوتا، صرف فتوی حجت ہوسکتا ہے اور یہ بات مسلمات میں سے ہے ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ اشرف السوانح ۳؍۱۶ ۲؎ ملفوظات حکیم الامت ۴؍۱۰، قسط :۳