فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے إعْلَمُوْا أنَّ اﷲَ یُحْیِیْ الأرْضَ بَعْدَ موْتِہَاکی تفسیر میں فرمایا ہے: لَیَّنَ الْقُلُوْبَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَإلاَّ فَقَدْ عُلِمَ اِحْیَائُ الأرْضِ مشاَہدَۃً یہاں ارض سے مراد قلوب ہیں ، یہ بھی علم اعتبار ہی ہے اور إلا فقد علم احیَائُ الأرْضِ سے مشہور تفسیر کی نفی کرنا مقصود نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اے مخاطب! تجھ کو اس آیت میں ظاہری مدلول پر اکتفا نہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ تو ظاہر ہی ہے بلکہ اس سے قلوب کی طرف انتقال کرنا چاہئے کہ دلوں کی بھی وہی حالت ہے جو زمین کی حالت ہے۔ یہ روایات میرے رسالہ مسائل السلوک میں مذکور ہیں ، ان آثار وغیرہ سے ثابت ہوگیا کہ علم اعتبار صوفیہ کی بدعت نہیں نصوص میں اس کی اصل موجود ہے پس جو لوگ علم اعتبار کی رعایت کرنے میں صوفیہ پر زندقہ اور الحاد کافتویٰ لگاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں ۔۱؎ یہ لطائف اور تاویلات اور نکات کے درجہ میں ہیں تفسیر نہیں اور ان کو علوم قرآنیہ نہیں کہہ سکتے۔۲؎استدلال واعتبار کی حقیقت اور دونوں کا فرق استدلال تو مفہوم لغوی سے ہوتا ہے اُن طرق کے ساتھ جو اہل معانی واصول نے بیان کئے ہیں اور اعتبار تشبہ واشارہ کے طور پر ہوتا ہے، اور ان دونوں کی اصل قرآن سے ثابت ہے، لیکن قرآن میں دلیل واستعمال کا لفظ صراحۃ نہیں آیا بلکہ اس کے مرادفات آئے ہیں چنانچہ ارشاد ہے قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اور ارشاد ہے قُلْ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ برہان اور علم دلیل کے معنی میں ہے، اس لئے اس کا نام استدلال رکھنا صحیح ہوگیا جیسے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے معنی میں یوں کہنا کہ حق تعالیٰ نے نماز کو فرض کیا ہے صحیح ہے حالانکہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں اللہ اور فرض کا لفظ صراحۃ نہیں مگر اس کا قائم مقام موجود ہے۔ ------------------------------ ۱؎ غایۃ النجاح ملحقہ التبلیغ ۱۲؍ ۲۲۸و۲۲۹ ۲؎ اشرف الجواب ۲؍ ۳۱۴