فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
کام نہ کرسکے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھے کہ اس مقام پر مسلمانوں کو تبلیغ کرنے میں اصلاح کی زیادہ امید ہے یا غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے میں ان غیر مسلموں کا زیادہ نفع ہے، بس جس صورت میں مخاطبین کے نفع کی زیادہ امید ہو اس صورت کو اختیار کرنا زیادہ اچھا ہے، اور نفع کے زیادہ امید کے موقع کی ترجیح میں خود اپنی رائے سے نہیں دے رہا بلکہ اس کا فیصلہ خود قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے، چنانچہ سورۂ عبس میں عبداللہ ابن مکتوم کے واقعہ میں دونوں موقعوں کا ذکر فرمایا اور ان دونوں موقعوں میں سے جس موقع میں نفع کی زیادہ امید تھی اس کو ترجیح دی گئی ہے۔۱؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر یہ قاعدہ تھا کہ اصولِ دین کی تعلیم مقدم ہے فروع کی تعلیم پر، روساء مشرکین سے جو خطاب ہورہا تھا وہ اصولی تعلیم کا تھا، یہ نابینا صحابی جو کچھ بات کرتے وہ فروع دین کے متعلق ہوتی کیونکہ وہ مومن اور اصول دین کے پہلے سے پابند تھے اس لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو ان سے مقدم کردیا۔ لیکن اس کے بالمقابل دوسرا ضابطہ بھی تھا وہ یہ کہ وہ کام مقدم رکھنا چاہئے جس کا نفع متوقع اور اس کے کامیاب ہونے کی امید زیادہ ہو، بمقابلہ اس کام کے جس کا نفع موہوم اور کامیابی کی توقع کم ہو، یہاں معاملہ ایسا ہی تھا کہ روساء مشرکین کے لیے تعلیم اصول کا اثر موہوم تھا اور مسلمان کے لیے تعلیم فروع کا نفع یقینی ، اس لیے قرآن کریم نے اس کو ترجیح دینے کی ہدایت فرمائی اور عتاب اس پر ہوا کہ آپ نے اس ضابطہ پر توجہ کیوں نہ فرمائی۔۲؎جتنی زیادہ مشقت ہوگی اتنا ہی زیادہ ثواب ہوگا اس قاعدہ کی تشریح فرمایا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہر عمل میں جتنی زیادہ مشقت ہوگی اتنا ہی زیادہ ثواب ہوگا، مگر میرے نزدیک اس میں یہ تفصیل ہے کہ اعمال مقصودہ میں تو یہ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ۹؍۶۶ قسط اول ۲؎ مجالس حکیم الامت ص:۱۵۰