فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
فصل۵ ظن کا بیان ظن کے مختلف معانی قرآن پاک کا نزول محاورات میں ہوا ہے، اورمحاورات سے معلوم ہوتا ہے کہ ظن کے معنی صرف وہ نہیں جو ، ’’مُلا ّحسن‘‘ (نامی کتاب) وغیرہ میں مذکور ہیں ۔ قرآن ہی کے چند مقامات کو دیکھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ محاورات میں ظن کے معنی عام طور سے محض حکم کی جانبِ راجح کے ساتھ مختص نہیں چنانچہ ایک مقام پر حق تعالی فرماتے ہیں وَإنَّہَا لَکَبِیْرَۃاِلاَّعَلَی الْخَاشِعِیْن الذِیْنَ یَظُنُّنُوْنَ الآیۃ اور ایک جگہ حق تعالی نے قیامت کے متعلق کفار کا مقولہ نقل فرمایا ہے، إنْ نَظُنُّ إلاَّ ظَناًّ وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ، یہاں بھی ظن سے مراد معنی اصطلاحی نہیں ہیں ، کیونکہ کفار کو وقوع معاد کا ظن غالب وراجح بھی نہ تھا، وہ تو بالکل ہی منکر ومکذب تھے، چنانچہ خود قرآن میں ہے، بَلْ کَذَّبُوْا بِالسَّاعَۃِ الخ۔ پس یہاں ظن سے مراد جانب مرجوح بھی نہیں کیونکہ ان کو تو قیامت کا احتمال بھی نہ تھا، ان سب موارد کو دیکھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ محاورہ میں ظن کے معنی خیال کے ہیں خواہ وہ خیال صحیح ہو یا باطل، قوی ہو یا ضعیف، اس کو پیش نظر رکھ کر تمام آیات کو دیکھئے سب حل ہوجائیں گی، اور کوئی اشکال نہ رہے گا، چنانچہ إنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا میں بھی ظن سے مراد مجرد خیال بلا دلیل ہے۔ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ بدائع ص ۱۹۵