فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ہی سمجھ سکتا ہے کہ کون سا مفسدہ قابل اعتبار ہے جس کی وجہ سے فعل مستحب کو ترک کردینا چاہئے اورکون سا مفسدہ قابل اعتبار نہیں ، مولانا قاسم صاحبؒ فرماتے تھے کہ اس کا فیصلہ شارع ہی کرسکتا ہے یا وہ شخص جو کلام شارع کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہو۔ چنانچہ شریعت میں اس کی دو نظیریں ہیں ایک تو وہ واقعۂ حطیم (کعبہ کو منہدم کرکے از سر نو تعمیر کرکے حطیم کو کعبہ میں شامل کرنے کا واقعہ )ہے، دوسرا واقعہ حضرت زینبؓ سے نکاح کرنے کا ہے (جوکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بیٹے حضرت زید کی مطلقہ تھیں ) کہ یہاں پہلے واقعہ میں مفسدہ کی رعایت کی گئی اور دوسرے میں نہیں کی گئی اس سے معلوم ہوگیا کہ ہر مفسدہ قابل اعتبار نہیں اور ہر مصلحت قابل تحصیل نہیں ، پس کسی مفسدہ کے احتمال سے مباح ومستحب کو حرام کہنے کا ہر کسی کو حق نہیں ۔۱؎کسی شخص کے جائز عمل سے اگر دوسروں کے غلط نظرئیے کی تائید اور ان کے لئے سند بنتی ہو تو اس شخص کے حق میں بھی وہ عمل ناجائز ہوجاتا ہے قاعدہ شرعیہ ہے کہ جس مباح سے عوام کے فساد میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو اس مباح کا ترک واجب ہوتاہے۔۲؎ مباح تو مباح اگر کسی مستحب میں بھی یہ احتمال ہو کہ عوام کہیں اس کو مستحب کے درجہ سے بڑھا کر مؤکد یا واجب نہ سمجھنے لگیں (خواہ اعتقاد میں خواہ عمل میں ) تو اس مستحب کو بھی مکروہ قرار دیا جائے گا۔۳؎ یہ قاعدہ سننے کے قابل ہے کہ کسی شخص کے فعل مباح سے جو حد ضرورت سے ادھر نہ ہو (یعنی سنت مؤکدہ اور واجب اور فرض نہ ہو) دوسرے شخص کو ضرر پہنچنے کا ------------------------------ ۱؎ وعظ تقلیل الاختلاط ملحقہ التبلیغ ص: ۱۰ تا ۱۱ ۲؎ انفاس عیسی ص ۳۱۷ ۳؎ الافاضات الیومیہ ۱۰؍ ۸۰