فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ایک اورشرعی دلیل (یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْالاَتَقُوْلُوْارَاعِنَا ) بعضے یہودیوں نے ایک شرارت ایجاد کی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں آکر لفظ رَاعِنَا سے آپ کو خطاب کرتے، جس کے معنی ان کی عبرانی زبان میں برے ہیں ،اور وہ اسی نیت سے کہتے تھے ، اور عربی میں اس کے معنی بہت اچھے ہیں کہ ہماری مصلحت کی رعایت فرمائیے ،اس لئے عربی داں اس شرارت کو نہ سمجھ سکتے، اور اس اچھے معنی کے قصد سے بعضے مسلمان بھی حضور کو اس کلمہ سے خطاب کرنے لگے،اس سے ان شریروں کو اور گنجائش ملی ، حق تعالیٰ نے اس گنجائش کے قطع کرنے کو مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ’’ اے ایمان والوں تم لفظ راعنا مت کہا کرو‘‘۔ اس حکم سے یہ معلوم ہوا کہ اگر اپنے فعل مباح سے کسی کوگنجائش گناہ کرنے کی ملے تو وہ فعل خود اس کے حق میں بھی مباح نہیں رہتا ،مثلاً عالم کے کسی فعل سے کوئی جاہل سندلے کرخلاف شروع کام کرنے لگے تو اگروہ فعل ضروری نہ ہوگا توخوداس عالم کے لئے بھی منع ہوجائے گا۔۱؎خواص کے جس فعل سے عوام کے عقیدے میں خرابی یا مفسدہ کا احتمال ہو تو خواص کے حق میں بھی وہ عمل ناجائز ہوجاتا ہے چونکہ دوسرے مسلمانوں کو ضرر سے بچانا فرض ہے اس لئے اگر خواص کے کسی غیر ضروری فعل سے عوام کے عقیدہ میں خرابی پیدا ہوتی ہو توو ہ خواص کے حق میں بھی مکروہ ہوجاتا ہے خواص کو چاہئے کہ وہ فعل کو ترک کردیں ۔ حدیث شریف میں قصہ آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کو بیت اللہ ------------------------------ ۱؎ بیان القرآن سورہ بقرہ پ ۱ص:۵۷