فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
دوسری بات یہ کہ ان قوانین کی کیا مصلحت ہے؟ تو ان قوانین پر عمل کرنا اس پر موقوف نہیں ، ان قوانین پر عمل کرنے کے لئے تو اس کی ضرورت ہے کہ ہم جارج پنجم کے بادشاہ ہونے کے عقلی دلائل تلاش کریں اور آثار وغلبہ سے اس کو سمجھیں ، لیکن اگر ہم اس کو بادشاہ مان لیں تو پھر سب قوانین پر عمل کرنا ضروری ہوگا، اس میں اس کا انتظار نہ کیا جائے گا کہ ہر قانون کی علیحدہ علیحدہ علت ہم کو معلوم ہو بلکہ اگر کسی مقدمہ میں جج فیصلہ کردے اور مدعی علیہ صرف قانون کی علت معلوم نہ ہونے کے وجہ سے عمل کرنے میں کوتاہی کرے تو وہ مجرم اور سزا کا مستحق ہوجائے گا، اسی طرح قوانین الٰہیہ (یعنی شرعی احکام میں ) بھی سمجھنا چاہئے۔۱؎بدلتے ہوئے حالات میں جدید مسائل کا استنباط ہر زمانہ میں ہزاروں ایسی جزئیات اور نئی نئی صورتیں پیش آتی ہیں جن کا کوئی حکم ائمہ مجتہدین سے منقول نہیں ، فقہاء نے اس کی تصریح نہیں فرمائی، اور علماء خود اجتہاد کرکے ان کا جواب بتلاتے ہیں ، اگر اجتہاد کا دروازہ بالکل بند ہوگیا اور اب کسی کا دماغ اجتہاد کے قابل نہیں تو کیا ایسے نئے نئے مسائل کا جواب شریعت سے نہیں ملے گا ؟ یا ان کے مسائل کے جواب کے لئے کوئی نیا نبی آسمان سے اترے گا؟ اَلْیَوْم أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُمْ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی تکمیل ہوچکی، اگر اجتہاد کا دروازہ بالکل بند کردیا جائے تو پھر شریعت کی تکمیل کس طرح مانی جائے گی؟ کیونکہ ظاہر ہے کہ بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ ان کا جواب کتب فقہ میں مذکور نہیں نہ ائمہ مجتہدین سے کہیں منقول تو ایسے مسائل کا شریعت میں کوئی بھی جواب نہیں ۔ فقہاء رحمہم اللہ کے اس قول کا یہ مطلب نہیں کہ چار سوسال کے بعد اجتہاد بالکل بند ہوگیا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اجتہاد فی الاصول کا درواہ بند ہوگیا اور اجتہاد فی الفروع ------------------------------ ۱؎ ملفوظات دعوات عبدیت ۱۴؍ ۱۹