فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
حیلہ کی ایک قسم استدلال بالالفاظ نہ کہ بالمعنی اور اس کے شرائط حضور صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی منافق کے جنازے کی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آیت تلاوت کی إسْتَغْفِرْلَہُمْ أوْ لاَ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ إنْ تَسْتَغْفِرلہُم سَبْعِیْن مَرَّۃ الخ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے تو میں نے استغفار کو اختیار کیا اور میں ستر بار سے زائد کرلوں گا۔ اب یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ عربی کا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ یہ أو تخییر کے لئے نہیں ہے بلکہ تسویہ کے لئے ہے جیسے سَواَئٌ عَلَیْہِمْ أأَنْذَرْتَہُمْ الخ اس میں بھی تخییر نہیں تسویہ ہے اور محاورہ کے موافق یہاں ستر کے عدد سے تحدید مقصود نہیں بلکہ تکثیر مقصود ہے تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیسے ارشاد فرمایا؟ حضرت مولانا یعقوب صاحب نے اس کا جواب دیا تھا کہ شدت رافت ورحمت کی وجہ سے آپ نے الفاظ سے تمسک فرمایا معنی کی طرف التفات نہیں فرمایا، مگر اس طرح کے استدلال کے واسطے دو شرطیں ہیں ایک یہ ہے کہ ضرورت ہو دوسرے یہ کہ معنوں کا انکار نہ ہو اور یہ شرطیں میں نے قواعد کلیہ سے سمجھی ہیں ،واقعہ حدیث میں یہ ضرورت تھی اس کا ظہور بعد میں ہوا کہ بہت سے لوگ اس رافت ورحمت کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔۱؎حیلہ معاملات میں ہوتا ہے نہ کہ عبادات میں بہت سے معاملات میں فقہاء رحمہم اللہ تعالی نے بعض ناجائز معاملوں کی صورت بدلنے کے حیلے لکھے ہیں جس کے بعد وہ جائز ہوجاتے ہیں ، اورخود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض معاملات میں ا س طرح کے حیلے وتدبیر کی اجازت منقول ہے مگربعض لوگ اس میں مغالطہ میں مبتلا ہیں اس کو معاملات اور دیانات سب میں عام کرلیا ہے حالانکہ حیلہ شرعی صرف معاملات میں ہوسکتا ہے دیانات میں نہیں ہوتا۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ الفصل للوصل ص ۲۰۲ و ۲۰۳ ۲؎ مجالس حکیم الامت ص ۹۵