فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
متفرق اصولی باتیں (۱) احادیث نہی قولی ہیں اور روایات اباحت فعلی اورقولی راجح ہوتی ہے فعلی پر ۔۱؎ (۲) جو امر نص میں مسکوت عنہ ہو اس کا دعوی کرنا کسی قرینہ سے نص کی مخالفت نہیں البتہ امرمثبت فی النص کی نفی یا منفی فی النص کا اثبات یہ نص کی مخالفت ہے۔۲؎ (۳) جو واقعہ وجوہ مختلفہ کو محتمل ہو اور اس کی وجہ منقول نہ ہو کسی دلیل ظنی سے اس کی تعیین کرنا کچھ مضائقہ نہیں جیسے فلاسفہ، مؤرخین نے ظن سے ہر واقعہ کے اسباب اور علل نکالے ہیں ۔۳؎ (۴) اتحادِ اثر سے اتحاد سبب ضروری نہیں اسی طرح اتحاد سبب سے سبب السبب کا اتحاد ضروری نہیں ۔۴؎ (۵) کسی شئی کا محمود ہونا اس کے مقصود ہونے کو مقتضی نہیں ۔۵؎ (۶) ایک علت کے ارتفاع سے دوسرے علل مؤثرہ کا ارتفاع لازم نہیں ہے۔۶؎ (۷) استخفاف ودوام سے مکروہ حرام ہوجاتا ہے۔۷؎ (۸) ایک مجتہد کے مقلد کو دوسرے امام کی تقلید کرنا محض اتباع کے واسطے حرام ہے اور داخل وعید ہونا ہے: یَقُوْلُوْنَ إنْ أوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ۔ ۸؎(ایضاً) (۹) کتب عقائد میں مصرح ہے کہ نصوص ظواہر پر محمول ہوتے ہیں ۔۹؎ (۱۰) اصول کی تقدیم فروع پر علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اس مقام پر ہے جہاں دونوں کا اثر مماثل ہو، باقی تعلیم فروع کا نفع یقینی ہو اور اصول کی تعلیم کا محتمل وہاں یہ مقدم ہے۔۱۰؎ (۱۱) قصر فی الصلوۃ کی اصل علت مشقت ہے مگر اس کی پہچان مشکل تھی اس ------------------------------ ۱؎ امداد الفتاوی ۲؍ ۲۱۹ ۲؎ بوادرالنوادر ص ۴۹۶ ۳؎ ایضاً ۴؎ ایضاً ۵؎ایضاً ۶؎امداد الفتاوی ۴؍ ۴۲۱،۳۹۱ ۷؎ ایضاً ۸؎ ایضاً ۹؎ امداد الفتاویٰ :۴؍۲۴۱-۳۹۱ ۱۰؎ افاضات ص ۴۱۶