فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
بارش ہوجائے تو پھر پڑھے حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ استسقاء بہیئت خاصہ منقول ہے اس میں رائے کو دخل نہیں ہوسکتا۔ دوسرے یہ لازم آئے گا کہ ہمیشہ بارش کے بعد نماز استسقاء پڑھا کرے شکر عطاء کے طور پر ، سو باوجودیکہ وہ شکر کررہا ہے نعمت کا مگرفقہاء اس کو بدعت قرار دیں گے معلوم ہوا کہ اصل تام کچھ اور ہی ہے کیونکہ اگر کوئی مستقل اصل نہ ہوتی توفقہاء اس پر یہ احکام مرتب نہ کرتے اور وہ وجہ مجھ کو معلوم نہیں پس چونکہ یہ حدیث من وجہ اصلی تھی اس لئے بیان کردیا۔ من وجہ اس لئے کہا کہ یہ کہیں منقول نہیں دیکھا کہ فقہاء کے اس قول کا اصل ماخذ کیا ہے، نیز اس لئے بھی کہ اس اصل پر کچھ سوالات پیدا ہوسکتے ہیں اور ان سوالوں کے جوابات میری سمجھ میں نہیں آئے اس لئے میں اصل کامل کی نقل کا دعوی نہیں کرتا، ہاں اس کو فقہاء کے قول کے لئے استیناس کا درجہ ضرور حاصل ہے، رہا یہ کہ اصل کیا ہے تو یہ محققین سے معلوم ہو سکتا ہے یا جو محقق ہو خود تحقیق کرلے۔ایک اور نظیر افعال میں بھی اس کی نظیر موجود ہے وہ یہ کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے اور فتح ہوئی، مدینہ شریف میں صحابہ کو بخار آیا تھا وہاں کی آب وہوا خراب تھی حضور کی برکت سے پھر اچھی ہوگئی تو عمرہ کے وقت کفار مکہ نے کہا تھا کہ ’’وَہَنَتْہُمْ حُمّٰی یَثْرِبَ‘‘ یعنی ان کو یثرب (مدینہ) کے بخار نے ضعیف کردیا ہے غرض کہ اس وقت صحابہ پر علالت کا اثر تھا ، حضور نے طواف کے وقت فرمایا کہ ذرا دوڑ کر اور سینہ ابھار کر چلنا جس کو رمل کہتے ہیں تاکہ کفار پر مسلمانوں کی قوت ظاہر ہو حالانکہ وہ موقع عبدیت کا تھا مگر قواعد اورپریڈ عبدیت کے خلاف تھوڑی ہے اور یہ فرمانا آپ کا نہ تھا اللہ جل شانہ کا فرمانا تھا۔