فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اجتہاد کااستعمال بلانکیر صحابہ سے قاطبۃًثابت ہے اور علت کبھی مصرحاً منقول ہوتی ہے ،کبھی اشارۃً مفہوم ہوتی ہے ۔۱؎اسرار وحِکَم کی تحقیق کرنے کی بابت قول فیصل اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل مدار احکام شرعیہ کے ثبوت کا نصوص شرعیہ ہیں لیکن اسی طرح اس میں بھی شبہ نہیں کہ باوجود اس کے پھر بھی ان احکام میں بہت سے مصالح اور اسرار بھی ہیں اور گو مدارِ ثبوت احکام کا ان پر نہ ہو لیکن ان میں یہ خاصیت ضرور ہے کہ بعض طبائع کے لئے ان کا معلوم ہوجانا احکام شرعیہ میں مزید اطمینان پیدا ہونے کے لئے ایک درجہ میں معین ضرور ہے، گو اہل یقین راسخ کو اس کی ضرورت نہیں لیکن بعض ضعفاء کے لئے تسلی بخش اور قوت بخش ہے، اسی راز کے سبب بہت سے اکابر علماء مثلاً امام غزالی وخطابی وابن عبدالسلام وغیرہم رحمہم اللہ تعالی علیہم کے کلام میں اس قسم کے معانی ولطائف پائے جاتے ہیں ۔۲؎ جن احکام کی حکمتیں معلوم ہوجائیں ان کو مبانی ومناشی احکام کا نہ سمجھے بلکہ خود ان کو احکام سے ناشی سمجھے، ان شرائط کے ساتھ حکمتوں کے سمجھنے کا مضائقہ نہیں ۔۳؎ سالم روش یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ احکام میں حکمتوں کا ہونا یقینی ہے لیکن تعیین چونکہ شارع نے نہیں کی اس لئے ہم بھی نہیں کرتے اور ہمارے امتثال کی بناء صرف حکم باری ہے گو ہم کو حکمت معلوم نہ ہو، اگر یہ علوم مقصود ہوتے تو صحابہ ان کی تحقیق کے زیادہ مستحق تھے۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ ۲؎ بوادر النوادر ص ۱۰۵، مقدمہ المصالح العقلیہ للاحکام النقلیہ ص:۲۸ ۳؎ انفاس عیسی ص ۴۱۷ ۴؎ دعوات عبدیت ۱۵؍ ۶۷و۶۹