فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اجماع کی حقیت اجماع کی حقیقت یہ ہے کہ کسی عصر کے جمیع علماء کسی امر دینی پر اتفاق کرلیں اور اگر کوئی عمداً یا خطاً اس اتفاق سے خارج رہے تو اس کے پاس کوئی دلیل محتمل صحت نہ ہو، اور خطا میں وہ معذور بھی ہوگا، غرض مطلقاً عدم شرکت مضر تحقق اجماع نہیں ورنہ قرآن مجید کے یقیناً محفوظ اور متواتر ہونے کا دعوی مشکل ہوجائے گا کیونکہ احادیث بخاری سے ثابت ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ(بعض) آیات منسوخۃ التلاوۃ کو داخل قرآن اور حضرت ابودرداء سورۃ واللیل کی آیت ’’وَمَا خَلَقَ‘‘ کو اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو خارج قرآن سمجھتے تھے، حالانکہ ایک ساعت کے اعتبار سے بھی اس کا کوئی قائل نہیں ، بلکہ سب اس کو تمام از منہ کے اعتبار سے یقینی اور محفوظ سمجھتے رہے، اور چونکہ ان حضرات کو استدلال میں یقیناً غلطی ہوئی اس لئے کسی نے سلفاً وخلفاً اس کو مضر ومخل اجماع نہیں سمجھا، البتہ ان کو بھی شبہ کی وجہ سے معذور سمجھا، وہ حدیثیں یہ ہیں ، الخ۔۱؎ظنی اجماع یا تو مراد اجماع سے اتفاق اکثر امت ہے اور گو ایسا اجماع ظنی ہوگا، مگر دعوی ظنی کے اثبات کے لئے دلیل ظنی کافی ہے اور ہر اختلاف قادح اجماع نہیں ۔۲؎اجماع کی خاص قسم پوری امت کا کسی فعل کو ترک کرنا اس کے عدم جواز کی دلیل ہے قاعدہ اصولیہ ہے کہ تمام امت کا کسی امر کے ترک پر متفق ہونا (یعنی پوری امت کا کسی کام کو نہ کرنا) یہ اجماع ہوتا ہے اس کے عدم جواز پر، چنانچہ فقہاء نے جابجا اس قاعدہ سے استدلال کیا ہے، جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین بھی ------------------------------ ۱؎ الاقتصاد ص ۳۸ ۲؎ الاقتصاد ص ۷۰