فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
فرمایا: جس بدعت کی کوئی اصل نہ ہو اس سے اتنی مضرت کا اندیشہ نہیں جتنا اصل ہونے کی حالت میں اندیشہ ہے کیونکہ مبتدع لوگوں کو اس میں ذرا سہارا مل جاتا ہے اس کو آگے بڑھالیتے ہیں ۔۱؎ بدعت کے قبیح ہونے کی ایک یہ پہچان ہے کہ دیکھو اس کی طرف میلان اوراس کا اہتمام علماء کو زیادہ ہے یا عوام کو، بدعتی مقتداء اپنا ایک پیسہ خرچ نہیں کرتے ہاں کھانے کو موجود ہوجاتے ہیں ، جہلاء کو اہتمام زیادہ ہوتا ہے خود علمائِ بدعت کے قلوب میں بدعت کی وقعت نہیں ، اور جن چیزوں کو ہم اچھا سمجھتے ہیں ہم خود بھی کرتے ہیں چاہے خرچ کرنا پڑے جیسے قربانی۔ پھر عوام میں بھی دیکھنا چاہئے کہ دیندار کتنے کرتے ہیں اور بددین کتنے کرتے ہیں ، بعض صالح ہوتے ہیں اور بہت کم کرتے ہیں اور اکثر فاسق و فاجر رشوت خور ہوتے ہیں ۔۲؎بدعت کی قباحت کا راز بدعت کی قباحت کا راز یہ ہے، اس میں اگر غور کیا جائے تو پھر بدعت کے منع ہونے میں تعجب نہ ہو، روز مرہ میں اس کی مثال دیکھئے اگر کوئی صاحب جو گورنمنٹ کے اطاعت گذار بھی ہوں وہ گورنمنٹ کے قانون کو طبع کریں اور اخیر میں ایک دفعہ (قانون) کا اضافہ کردیں اور (وہ قانون اضافہ شدہ) ملک وسلطنت کے لئے بے حد مفید بھی ہو تب بھی اس کو جرم سمجھا جائے گا اور یہ شخص سزا کا مستحق ہوگا، پس جب دنیا کے قانون میں ایک قانون کا اضافہ جرم ہے، توقانونِ شریعت میں ایک دفعہ (قانون) کا اضافہ جس کو شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں کیوں جرم نہ ہوگا۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ افاضات الیومیہ ۸؍۲۲ ۲؎ حسن العزیز ۲؍ ۳۰۰ ۳؎ احسان التدبیر ص ۱۳ اشرف الجواب ۲؍ ۳۴