فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
جب کسی صفت کا اطلاق کسی چیز پر کیاجاتاہے تو اس کا ادنیٰ درجہ بلکہ اوسط درجہ بھی مراد نہیں ہوتا بلکہ کامل ہی درجہ مراد ہوتا ہے ،جیسے شجاع،سخی،حسین وغیرہ کہ ان صفتوں میں ادنیٰ درجہ والے کو شجاع،سخی،حسین نہیں کہہ سکتے۔ چنانچہ کسی کومالدار کہا جائے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اگر کسی کے پاس ایک کوڑی یاایک پیسہ ہے تووہ بھی مالدار ہے اگر چہ لغۃً اس حالت میں بھی مالداری کا اطلاق اس پر صحیح ہے، لیکن اپنے محاورہ کو دیکھئے آپ اس شخص کو کبھی مالدار نہیں کہیں گے، علیٰ ہٰذا جتنی صفات ہیں سب میں یہی قاعدہ جاری ہے ۔۱؎ (دوسری مثال) فَبَشِّرْعِبَادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ :( پ۲۳) یہاں قول سے مراد کلام اللہ ہے دووجہ سے ایک یہ کہ اس میں لام عہد کا ہے اور یہاں معہود کلام اللہ ہی ہے ،دوسرے عربیت کا قاعدہ ہے المطلق اذااطلق یراد بہٖ الفرد الکاملکہ مطلق سے مراد فرد کامل ہوتا ہے،پس یہاں بھی مطلق قول سے مراد قول کامل ہونا چاہئے ،اور قول کامل قرآن ہی ہے کیونکہ قرآن سے کامل ترکون ساقول ہوگا ،ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَرَیْبَ فِیْہِ یہی کتاب کامل ہے اس میں کچھ شک نہیں ۔ اور یہ ایسا ہے جیسا ہمارے محاورے میں بولاکرتے ہیں کہ ’’بات تویہ ہے ‘‘ یعنی سچی اور کامل بات یہ ہے،اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس کے سوااور کوئی بات بات ہی نہیں ، بلکہ معنی یہ ہیں کہ اس کے برابر دوسری بات کامل نہیں ایسے ہی ذٰلک الکتٰب کو سمجھئے کہ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کے برابر کوئی کتاب نہیں ۔۲؎قید و شرط کبھی صراحۃً و لفظاً ثابت ہوتی ہے کبھی قرینہ سے اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی مفتی محقق کہے کہ رہن رکھنا حرام ہے، ہر چند کہ لفظ رہن اس کے کلام میں مطلق ہے جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ غضب ہے کہ اللہ تعالیٰ تورہن کو ------------------------------ ۱؎ الصالحون ملحقہ اصلاح اعمال ص:۱۳۱،۱۵۸ ۲؎ الاستماع والاتباع ملحقہ حقوق الزوجین ص: ۴۰۴