فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
تشبہ ہوتا ہے، قلب میں اولا اس کی عظمت ہوتی ہے اور اس کے استحسا ن کا درجہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی طرف میلان ہوتا ہے اس کے اثر سے تشبہ ہوتا ہے پس جب رکون اورمیلان حرام ہے تو تشبہ بھی حرام ہے یہ ہے وہ فیصلہ جس کو آج نیچری کہتے ہیں کہ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُم سمجھ میں نہیں آتا، بعض مدعیان علم حدیث٭ مَنْ َتشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُم کوضعیف کہتے ہیں مگر آیت تو ضعیف نہیں ہے۔ ۱؎تشبہ کے ممنوع ہونے کی دلیل حدیث پاک سے دیکھو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کو عتمہ کہنے سے منع فرمایا تھا (مسلم شریف) حالانکہ یہ بھی ایک لغت تھی مگر چونکہ اہل جاہلیت اس کو بولتے تھے اس واسطے پسند نہیں فرمایا، تشبہ کے بارے میں بہت لوگوں کی طبیعت میں الجھن ہوتی ہے کہ اس میں کیا حرج ہے۔۲؎تشبہ کے ممنوع ہونے کی عقلی وعرفی دلیل یہ مسئلہ تشبہ کا صرف نقلی ہی نہیں عقلی بھی ہے اگر کوئی جنٹلمین صاحب اپنی بیگم صاحبہ کا زنا نہ رنگین جوڑا پہن کر اجلاس میں کرسی پر آ بیٹھے کیا خود اس کو یا دوسرے دیکھنے والوں کو ناگوار نہ ہوگا تو آخر ناگواری کی وجہ بجز تشبہ کے اور کیا ہے؟ سو ایک عورت مسلمان جو دینداری میں شاید تم سے بھی بڑھی ہوئی ہواس کے تشبہ سے تو ناگواری ہوتی ہے اور کفار وفجار کے تشبہ سے ناگواری کیوں نہ ہو۔۳؎ ایک ضلع میں ایک شخص ترکی ٹوپی پہن کر کچہر ی میں گئے صاحب کلکٹر ان پر ------------------------------ ٭حدیث ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ احمد وابو واؤد، والطبرانی فی الکبیر من حدیث ابی منید الجرشی عن ابن عمر بہ مرفوعاً، وفی سندہ ضعف ولکن شاہدہ عند البزار من حدیث حذیفۃ وابی ہریرۃ ۔۔۔ وقد صحح الحدیث ابن حبان والعراقی۔ (مقاصد الحسنہ ص:۴۰۷)۔ ۱؎ الافاضات ص ۳۲۶ ج ۸ وکلمۃ الحق ص ۱۲۶ والقول الجلیل ص ۶۱ ۲؎ حسن العزیز ۴؍ ۴۷۳ ۳؎ الافاضات ص ۳۲۶ ح۸، وحسن العزیز ۲؍ ۳۵۴