فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
علت وحکمت کا واضح فرق مع مثال اور احکام شرعیہ میں بیان کردہ علل کی حیثیت احکام شرعیہ کے ساتھ جو کبھی مصلحت مذکور ہوتی ہے وہ کبھی علت ہوتی ہے اور کبھی حکمت ہوتی ہے، علت کے ساتھ تو حکم وجوداً و عدماً دائر ہوتا ہے لیکن حکمت کے ساتھ دائر نہیں ہوتا یعنی حکمت کے تبدل سے حکم نہیں بدلتا، اور اس فرق کا سمجھنا یہ راسخین فی العلم کا خاصہ ہے پس (لحیۃ کے مسئلہ میں حدیث پاک میں ) خَالِفُوْا الْمُشْرِکِیْنَ کا مقرون فرمانا بطور حکمت ہے، بطور علت کے نہیں ، حرمت کا مدار تغییر یعنی صورت کا بگاڑنا ہے نہ مخالفت، دلیل اس کی یہ ہے کہ بعض احادیث میں جو یہ حکم آیا ہے وہ اس سے مطلق ہے جیسا کہ: لَعَنَ النَّبِیّ صَلَی اﷲَ عَلَیْہِ وَسلَّم المُخَنِّثِیْنَ مِنَ الرِّجَال میں ، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی حاکم رعایا سے کہے کہ دیکھو قانون کو مانو، فلاں قوم کی طرح شورش مت کرو، تو اگر وہ قوم اتفاق سے شورش چھوڑ دے تو کیا اس حالت میں رعایا کو اس قوم کے ساتھ اس میں بھی مخالفت کرنا چاہئے اس بناء پر کہ پہلے ان کی مخالفت کا حکم ہوا تھا۔۱؎ قرآن میں جہاں کہیں حکم کے بعد لام غایت آیا ہے وہ علت نہیں ہے حکمت ہے مطلب یہ ہے کہ اس حکم پر یہ اثر مرتب ہوگا ، یہ مطلب نہیں کہ حکم کی بناء اس پر ہے۔۲؎علت کی دوقسمیں احکام شرعیہ بعض معلل ہوتے ہیں اور اس علت کو مجتہدین اپنے ذوق اجتہادی سے سمجھ جاتے ہیں ،اور یہ اجتہادوہ رائے نہیں ہے جس کی مذمت وارد ہے کیونکہ ------------------------------ ۱؎ امداد الفتاوی ۴؍ ۲۲۲ ۲؎ انفاس عیسی ص: ۴۱۷ ج ۲