فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
والا اور تم سود دینے والے اورحدیث میں دونوں پر لعنت آئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے کھانے والے اور کھلانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے، بلا ضرورت لعنت خریدی، اور یہ کس کی بدولت ہوا؟ آپ کے فعل کی بدولت نہ آپ ایسا کرتے اور نہ وہ اس مصیت میں پڑتے۔ ۱؎ایک صاحب کا سوال اور حضرت تھانوی کا جواب ایک صاحب کہنے لگے کہ رئیسوں مالداروں کو (بارات وغیرہ کی رسموں سے) کیوں منع کیا جاتا ہے ان کے پاس روپیہ کافی ہوتا ہے شادیوں میں خرچ کرنے سے ان پر کیا بار ہوتا ہے،البتہ غریبوں کو منع کرنا چاہئے۔ میں نے کہا سبحا ن اﷲ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں ذرابھی ہمدردی نہیں ، میں پوچھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کبھی آپ کا بیٹا بیمار ہو اور حلوا کھانا اس کو نقصان دہ ہو اس وقت آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ یہ کریں گے کہ آپ تو حلوا بنا کر کھایا کریں اور وہ دیکھا کرے؟ میں تو نہیں سمجھتا کہ کوئی باپ ایسا ہوگا کہ اس کے سامنے حلوا پکائے گا، حضرت اس وقت یہ حالت ہوگی کہ حلوا کھانا چاہیں گے بھی تو حلق سے نہ اترے گا، اگر ایسا ہی کوئی سخت دل ہوگا تو خیر بازار میں جاکر کھالے گا لیکن گھر میں تو حلوے کا نام بھی نہ آنے دے گا، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ ظاہر ہے یہی کہ اگر گھر میں حلوا پکے گا یا گھر میں آئے گا تو یہ نہیں ہوسکے گا کہ صرف وہی لوگ کھائیں جن کو حلوا نقصان نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو کھاتا دیکھ کر اس کو بھی حرص ہوگی اور یہ بھی کھائے گا، اور بدپرہیزی کرے گا چونکہ اس سے محبت ہے اور اس کا نقصان ہر گز گوارا نہیں اس کی خاطر سارے گھر والوں پر حلوے کا پرہیز ہوجائے گا۔ لیجئے اس کی بناء اسی قاعدہ شرعی پر تو ہوئی کہ جو فعل مباح (جائز) ہے وہ ------------------------------ ۱؎ نقداللبیب فی عقد الحبیب ص:۵۹۰