فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اور اگروہ چیزیں مباح بالضرورۃاور محرم الاصل ہوتی ہیں تو اس میں توسع نہیں ہوتا بلکہ تضیق ملحوظ ہوتا ہے جس کا اثر یہ ہے کہ جس عدد اور جس مقدار کی اس میں تصریح ہے اس سے تجاوز کرنا جائز نہیں ، اور حلت تزوّج اسی نوع سے ہے۔ پس قرآن مجید میں جس قدر نساء سے جواز نکاح مذکور ہے اور اس سے زائد کے جواز کی نفی مصرح نہیں ہے، تو بانضمام فائدہ مذکورہ چار سے زیادہ نکاح کرنا عدم جواز پر محمول ہوگا۔۱؎مباح اور جائز کے دودرجے اور ان کا شرعی حکم مداخلت فی الدین کی تعریف اور اس کا معیار جائز کے دودرجے ہیں ایک محض مباح جس میں کوئی حیثیت دین اور طاعت کی نہیں ،جیسے معالجہ امراض کا اور اس کا ترک اور دوسرا درجہ جس میں کوئی حیثیت دین اور طاعت کی بھی ہے اور معیار اس کا یہ ہے کہ اس کی فضیلت اور ترغیب شریعت میں آئی ہو،جیسے نکاح کہ اس کی تاکید وارد ہے اور اس کے ترک بلاعذر پر وعید بھی ،یہ صاف دلیل ہے اس کے دین ہونے کی، اسی لئے فقہاء نے جو نکاح کے اقسام اور ان کے احکام لکھے ہیں ان میں کوئی درجہ مباح کا نہیں ،ہاں عارض کے سبب مکروہ توہوجاتا ہے مگر فی نفسہٖ طاعت ہی ہے،پس نکاح کا کوئی نیاقانون بنانامداخلت فی الدین ہے اور معالجہ کا قانون بنانا مداخلت فی الدین نہیں ہے۔ شرعی فقہی قاعدہ ہے کہ جو عمل اطلاق کے درجہ میں جس شان کے ساتھ موصوف ہوتا ہے وہ جس قید جائز کے ساتھ بھی صادر ہوگا اسی شان کے ساتھ موصوف رہے گا،مثلاً نماز ظہر کی فرض ہے اور خاص اس کی یہ قید کہ دو۲ہی بجے کے وقت ہو فرض ------------------------------ ۱؎ ملفوظات حکیم الامت ۳؍ ۳۷