فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
حالات کے تحت نئی سزائیں اور قوانین مقرر کرنا فرمایا، لوگ میرے متعلق کہتے ہیں کہ جو احتساب تمہارے یہاں ہے وہ پہلے قریب کے بزرگوں میں نہ تھا تومیں اس کا قواعد سے یہ جواب دیا کرتا تھا کہ اس زمانے کے عوام ایسے ابتر نہ تھے جیسے اس وقت کے ہیں لہٰذا ان بزرگوں کو ایسے احتساب کی ضرورت نہ تھی، اور اب چونکہ عوام کی حالت میں تبدیلی ہوگئی لہٰذا ایسے قواعد وضوابط مقرر کرنے کی ضرورت پڑی۔ مگر بفضلہ تعالی اب مجھ کو اس کی ایک جزئی نظیر بھی حدیث میں مل گئی وہ یہ کہ حدّ خمر (شراب پینے کی سزا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں متعین نہ تھی، یہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں اور نہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں ، لیکن جب شراب نوشی کی کثرت ہوئی تو عمّال نے گردو نواح سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ یہاں کثرت سے لوگ شراب نوشی کرتے ہیں اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حدّ خمر معین کرنا چاہا تو تمام صحابہ کرام کو مشورہ کے لئے جمع کیا، مختلف حضرات کی مختلف رائیں ہوئیں ، حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک تقریر کی جس میں فرمایا کہ جب آدمی شراب پیتا ہے تو اکثر اس کے نشے میں ہذیان بکنے لگتا ہے جس میں ممکن ہے کہ کوئی ایسی بات اس کی زبان سے نکل جائے جس سے کسی پر تہمت لگ سکے اور تہمت کی حد اسی درّے ہیں لہٰذا اسی درّے معین ہونے چاہئیں ، چنانچہ بالاتفاق اسی درّے مقرر کئے گئے، وہی اسی درّے اب تک مقرر ہیں ۔ تو جو لوگ مجھ پراعتراض کرتے ہیں کہ یہ احتساب جو تم نے قائم کر رکھا ہے وہ پہلے نہ تھا، یہی اعتراض حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بھی ہوتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شراب پر کوئی حد مُعیّن نہ تھی نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت