فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
علم اعتبار کی ایک اور مثال إذْ َہْب إلٰی فِرْعَونَ أنَّہٗ طَغٰی، کے تحت صوفیہ نے لکھا ہے إذْہَبْ یَا رُوْحُ إلَی الْنَّفْسِ وَجَاہِدْہَا أنَّہَا قَدْ طَغَتْ، کہ اے روح نفس کی طرف جا اور اس سے جہاد کرکے اس کو مغلوب کرکہ وہ حد سے نکلا جا رہا ہے صوفیاء کی مراد تفسیر کرنا نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اے قرآن پڑھنے والے تو قرآن کے قصوں کو محض قصہ سمجھ کر نہ پڑھ بلکہ ان سے سبق حاصل کر کیونکہ قرآن کریم میں جو قصے ہیں وہ عبرت حاصل کرنے کے لئے بیا ن کئے گئے ہیں ، لقدْ کاَنَ فیْ قَصَصِہِمْ عِبرَۃٌُ الخ پس جب تو موسی علیہ السلام کے قصہ پر پہنچے تو اس سے یہ سبق حاصل کر کہ تیرے اندر بھی ایک چیز موسی کے اور ایک چیز فرعون کے مشابہ ہے یعنی روح اور نفس، ایک داعی الی الخیر ہے جو مشابہ موسی علیہ السلام کے ہے، دوسرے داعی الی الشر ہے جو مشابہ فرعون ملعون کے ہے پس تو بھی اپنے روح کو نفس پر غالب کر اور نافرمانیوں سے باز آجا، یہ علم اعتبار ہے کہ دوسرے کے قصہ کو اپنی حالت پر منطبق کرکے سبق حاصل کیا جائے۔۱؎علم اعتبار یا قیاس صوری کی دلیل رہا یہ سوال کہ جس طرح صوفیاء نے علم اعتبار کا استعمال کیا ہے کیا نصوص میں بھی استعمال آیا ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ بحمد اللہ اس کی نظیر نصوص میں بھی موجود ہے اور میں یہ بات خود نہیں کہتا بلکہ شاہ ولی اللہ صاحب کے قول سے میں اس کا ثبوت دیتا ہوں ۔ اتنے بڑے محقق نے دو حدیثوں کے متعلق الفوز الکبیر میں یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ تقدیر کا مسئلہ ارشاد فرمایا: مَامِنْکُمْ مِنْ أحَدٍ إلاَّ وَقَدْ کُتِبَ لَہُ مَقْعَدُۃٗ مِنَ النَّارِ وَمَقْعَدُہٗ مِنَ ------------------------------ ۱؎ بدائع ص ۲۴۰