فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
مجتہدین کو اللہ تعالی نے ایک خاص شان عطا فرمائی ہے، خدا نے مجتہدین میں ایک کمال پیدا کیا ہے جو ہم لوگوں میں نہیں ہے ۔عوام و علماء اور مجتہدین کی مثال اس تفاوت کی وجہ سے عوام کی تو ایسی مثال ہے جیسے عام رعایا اور علماء کی شان ایسی ہے جیسے وکلاء اور مجتہدین کی مثال ایسی ہے جیسے ہائی کورٹ کے جج، پس ایک رعیت کو ہائی کورٹ کے جج بلکہ ایک معمولی جج کی مخالفت جائز نہیں تو عوام کو علماء کی مخالفت کب جائز ہوگی، میں یہ نہیں کہتا کہ علماء سے غلطی نہیں ہوتی ،بلکہ غلطی ہوجاتی ہے مگر اس کا پکڑنا عوام کا کام نہیں بلکہ علماء ہی کاکام ہے اور جب تک ایک متدین عالم کا فتوی بلا تعارض موجود ہے عامی کے ذمہ واجب ہے کہ اس کا اتباع کرے۔عوام کو علماء اور مفتیوں کی مخالفت جائز نہیں ، اتباع واجب ہے پس معلوم ہوا کہ علماء کی مخالفت کسی طرح جائز نہیں حتی کہ اگر آپ کے سامنے حدیث کا ترجمہ بھی موجود ہو تب بھی آپ کو علماء کی مخالفت جائز نہیں کیونکہ ترجمہ سمجھنے کے لئے بھی علم کی ضرورت ہے جیسے کہ قانون کا ترجمہ ہوگیا ہے مگر پھر بھی کوئی شخص جج کی مخالفت میں اپنی رائے پیش نہیں کرسکتا گووہ کسی قانون کی کتاب کے حوالہ کے ساتھ ہو، اور اگر کرے تو اب بھی اس کا وہی حال ہوگا جو قانون کا ترجمہ نہ ہونے کی حالت میں ہوتا یعنی قانون کا مخالف قرار دیا جائے گا، تو اسی طرح اگر چہ حدیث کا ترجمہ بھی ہوگیا، مگر پھر بھی آپ کو اجتہاد کرنا اور علماء سے مزاحمت کرنا جائز نہیں ا ور جس طرح حکام کی مخالفت کرنے والا حقیقت میں گورنمنٹ کی مخالفت کرنے والا ہے، اسی طرح علماء کی مخالفت کرنے والا حضور کی مخالفت کرنے والا ہے۔