فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
ہے یعنی اور کبھی کبھی اس میں خیر کی بھی خواہش پیدا ہوجانا اس مفہوم کے منافی نہیں کیونکہ کثیر الامر کو دائم الامر ہونا لازم نہیں ، اور اگر نادم بھی ہونے لگے تو لوامہ کہلاتا ہے، اور اگر اکثر خواہش خیر کی کرے اس وقت مطمئنہ کہلاتا ہے۔۱؎جذب کی تعریف وتقسیم بلاواسطہ اکتساب ومجاہدہ جو احوال باطنیہ حاصل ہوجاتے ہیں اس کو جذب کہتے ہیں اور اجتباء و محبوبیت اور مرادیت بھی کہتے ہیں ۔۲؎علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین کی تعریف یقین کہتے ہیں اعتقاد جازم مطابق للواقع کو، اگر ادراک کا صرف یہی مرتبہ ہے تو علم الیقین ہے اور اگر اس کے ساتھ غلبہ حال بھی ہو لیکن اس غلبہ میں مدرک غیر مدرک سے غیبت نہ ہو تو عین الیقین ہے، اور ااگر ایسا غلبہ ہے کہ غیر مدرک سے غیبت بھی ہے تو حق الیقین ہے اسی کو کتب فن میں مختلف عنوانات سے لکھا ہے۔۳؎ اعتقاد جازم مطابق للواقع کو (یعنی وہ پختہ اعتقاد جو واقعہ کے مطابق ہو) یقین کہتے ہیں (اس کے تین مرتبے ہیں علم الیقین، عین الیقین ، حق الیقین) علم الیقین کا مرتبہ یہ ہے کہ کوئی کسی شے کو اعتقاد جازم (یعنی پختہ اعتقاد ) کے ساتھ جان لے جیسے کسی کو یہ علم ہوجائے کہ آگ جلاتی ہے۔ عین الیقین یہ کہ اس کے ساتھ مشاہدہ بھی ہوجائے ،مثلاً آنکھ سے دیکھ لے کہ آگ کسی شے کو جلارہی ہے۔ حق الیقین یہ کہ اس کے ساتھ اتصاف بھی حاصل ہوجائے ، مثلاً کوئی شخص اپنا ہاتھ آگ میں ڈال کر دیکھ لے اور ہاتھ جل جائے ۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ امداد الفتاوی ص ۱۷۰ ج۵ ۲؎ امداد الفتاوی ص ۱۵۱ج۵ ۳؎امداد الفتاوی ۵؍ ۱۶ ۴؎التکشف ص:۱۱۱ ،مبادی التصوف ص۱۱