فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
بدعت حسنہ وسیئہ کی تقسیم محض نزاع لفظی ہے الجواب :قاعدہ کلیہ اس باب میں یہ ہے کہ جو امر کلیاً یا جزئیاً دین میں نہ ہو اس کو کسی شبہ سے جزو دین علماً وعملاً بنا لینا بوجہ مزاحمت احکام شرعیہ کے بدعت ہے، دلیل اس کی حدیث صحیح ہے من أحدث فی أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد، کلمہ من اور فی اس مدعا پرصاف دلالت کر رہے ہیں اورحقیقی بدعت ہمیشہ سیّۂ ہی ہوگی، اوربدعت حسنہ صوری بدعت ہے، حقیقتاً بوجہ کسی کلیہ میں داخل ہونے کے سنت ہے پس تقسیم بدعت الی الحسنہ والسیئہ کا اثبات اور نفی محض نزاع لفظی ہے کہ اثبات بناء بر صورت کے ہے اور نفی بنا بر حقیقت کے، ولامشاحۃ فی الاصطلاح۔ اس قاعدہ کلیہ کے اتقان اور امعان کے بعد سب شبہات مذکورہ سوال دفع ہوگئے ، بدعت کی تعریف بھی حدیث سے معلوم ہوگئی اور حدیث تراویح وحدیث کل بدعۃ میں بھی تعارض نہ رہا ، اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے محض اس وجہ سے کسی امر کو بدعت نہیں کہا کہ عہدبرکت مہد میں نہ تھا ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اول ایک امر کو بدعت سمجھیں اور پھر بلااس کے کہ اس کا وجود بعینہ زمانہ مبارک میں نقل سے ثابت ہواس کے بدعت ہونے سے رجوع فرمالیں ، جیسامناظرہ متعلقہ جمع قرآن میں واقع ہوا اس سے صاف معلوم ہواکہ بناء کلام تعریف مذکور پر ہے، ظاہر نظر میں ایک امر جزودین نہ معلوم ہواانکار کرنے لگے ،بعد غور کے کسی کلیہ شرعیہ میں داخل نظر آیا، انکار سے رجوع کرلیا ، اور اس سے باقی جزئیات مشتبہ کا حکم بھی معلوم ہوگیا ،جہاں مخدور مذکورلازم آئے گا وہ بدعت ہوگا ، گوظاہراً مستحسن ہو،ا ور جہاں وہ مخدور لازم نہ آئے گا وہ سنت ہوگا گوصورۃ بدعت ہو۔ امید ہے کہ قدرے تامل سے سب شبہات کے حل ہونے کے لئے کافی ہوگا ، اسی لئے حاجت تفصیل جواب کی نہیں سمجھی گئی ،اگر بعد تأمّل بھی کسی جزوی میں اشتباہ باقی رہے تو بالتعیین ظاہر کرنا چاہئے ۔۱؎ ۱۸؍ذیقعدہ ۱۳۲۰ھ امداد ج ۴ ص۷۶ ------------------------------ ۱؎ امداد الفتاوی ۵؍ ۲۵۸