فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اصل امر میں وجوب ہے،امر فوری وجوب کے لئے ہوتا ہے اصل امر میں وجوب ہے، اور کسی فعل کا وجوب اس کی ضد کی حرمت کو مستلزم ہوتا ہے یہ مسئلہ اصولیہ ہے اور عقل بھی صاف اس کی شہادت دیتی ہے مثلاً اعفاء اللحیۃ اور احفاء شوارب کا امر اس کے خلاف کی حرمت کو مستلزم ہے۔ صیغہ امر اصل میں موضوع ہے وجوب کے لئے اور اگر چہ مطلق امر کے واسطے فوری ضروری نہیں مگر متبادر ضرور ہے، ہاں اگر وہ فعل یقینی طور پر تدریجی ہو تو وہاں فوراً متبادر نہیں ہوتا ور نہ عموماً امر سے متبادر یہی ہوتا ہے کہ یہ کام ابھی فوراً کیا جائے پس فَاتَّقُوا اﷲَ حَقَّ تُقَاتِہٖ سے صحابہ یہ سمجھے کہ ہم کو اسی وقت کامل تقوی اختیار کرنا چاہئے اس لئے گھبرا گئے تو پھر یہ حکم نازل ہوا فَاتَّقُوا اﷲ مَااستَطََعتُمْ، کہ جتنا مرتبہ تقوی کا اس وقت ہوسکے اتنا اس وقت اختیار کرلو پھر بتدریج دوسرے مراتب میں بقدر استطاعت ترقی کرتے رہو، پس یہ آیت پہلی کے لئے محققین کے نزدیک ناسخ نہیں بلکہ بیان ہے۔۱؎فی زماننا اباحت اصل ہے یا حرمت؟ اباحت کے لئے پہلے تو یہ فتوی تھا کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے جب تک حرمت ثابت نہ ہو اب تو وہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ کہنا چاہئے کہ اصل اشیاء میں حرمت ہے جب تک کہ اباحت ثابت نہ ہو، یہ فتوی دینا چاہئے کہ تب کہیں جا کر لوگ حرام سے بچیں گے بڑی گڑ بڑی ہورہی ہے۔۱؎عزیمت ورخصت کی حقیقت بعض یااکثر احکام میں دودرجے شریعت میں مقررہیں ،’’عزیمت‘‘ یعنی حکم اصلی جو کہ شرعاً مقصود ہے اور’’ رخصت‘‘ یعنی وہ آسانی جو کسی عذر اور ضرورت سے اس عزیمت میں تجویز کی گئی ہے، اور اس رخصت کے برتاؤکواصلی حکم سمجھ لینا ایسا ہی غلط ہے جیسا اتوار کی ------------------------------ ۱؎ امداد الفتاوی ۴؍۲۲۱، وغیرہ