فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
وسلم کے ساتھ مساوات کا قصد کیا اور اپنے کو اس سنت پر عمل کرنے کا اہل سمجھا، ہم اس کے اہل نہ تھے، اس لیے تکلیف ہوئی، آئندہ سے ہمارے واسطے چھنا ہوا آٹا ہی بدستور پکایا جائے۔ سبحان اللہ !کیسا ادب تھا کوئی بے ادب ہوتا تو سنت پر اعتراض کرتا کہ اچھا سنت پر عمل کیا تھا عمل بالسنت سے یہ ضرر ہوا، مگر حضرت شیخ نے ہم جیسوں کی تعلیم فرمادی کہ ہم اس سنت کے اہل نہ تھے کیونکہ ہمارے قویٰ ضعیف ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قویٰ ہم سے زیادہ قوی تھے اس لیے یہ طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے واسطے مناسب تھا۔ غرض ماکولات و مشروبات وملبوسات میں اگر ہوسکے تو جتنا بھی ہوسکے اتباع کرے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدّ ورغبت سے کھایا ہے، اسی طرح آپ کو دست کا گوشت مرغوب تھا اور ٹھنڈا اور میٹھا پانی مرغوب تھا وغیرہ وغیرہ، لیکن اس میں اپنی ہمت سے آگے غلو نہ کیا جائے، زیادہ اہتمام اور کاوش کی ضرورت اُن امور میں ہے جن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے یا مخلوق سے یعنی عبادات و معاملات ، اور ماکول و مشروب کا تعلق تو اپنی ذات سے ہے اس میں بہت کاوش کی ضرورت نہیں ، ہاں سہولت سے جتنا ہوجائے یہ بھی دولت عظیمہ ہے، مگر آج کل برعکس معاملہ ہے کہ ماکول و مشروبات و ملبوس میں تو اتباع نبوی کاوش کے ساتھ کیا جاتا ہے، عبادات اور معاملات میں اتباع کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔۱؎رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل ماثور سنت نہیں بلکہ سنت وہ ہے جو آپ کی عادت غالبہ ومستمرّہ ہو، مثال سے وضاحت دیکھو، ایک باغ میں پھل بہت قسم کے ہیں ، ایک درخت انار کا بھی ہے ایک ------------------------------ ۱؎ الغالب للطالب ملحقہ نظام شریعت ص:۳۳۴