فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ہوگیا کہ لاعـبرۃ لخصوص المورد بل لعموم الالفاظ اور یہ عقلی مسئلہ ہے کہ اس میں زیادہ تفصیل کرنے کی حاجت نہیں ہے۔۱؎قاعدہ العبرۃ لعموم الالفاظ کی تشریح فرمایا: اصول فقہ کا جو یہ مسئلہ ہے کہ’’ العبرۃ لعموم الالفاظ لالخصوص المورد‘‘ اس میں میرے نزدیک اتنی قید ضروری ہے کہ وہ عموم متکلم کی مراد سے متجاوز نہ ہو، دلیل اس کی وہ واقعہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ ’’ایک شخص کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ سفر میں ہے اور بے ہوش پڑا ہے تحقیق سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھے ہوئے ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’لَیْسَ مِنَ البِرِّ الصِّیَامُ فِیْ السَّفَر‘‘ یہاں پر اس حدیث پاک کے الفاظ تو عام ہیں ہر مسافر کے لئے، چنانچہ بعض نے یہی سمجھا ہے مگر بعض صورت میں اذن صوم فی السفر سے اس کا تعارض ہوگا لیکن قرائن سے کوئی مجتہدذوقاً یہ حکم کرسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عموم مقصود نہیں بلکہ اس قید کے ساتھ وہ عموم مقصود ہے کہ جس کی ایسی حالت ہوجائے (اس کے لئے سفر میں روزہ نہ رکھنا ہی ضروری ہے) اور جمہور کا یہی مذہب ہے، پس معلوم ہو ا کہ جمہور کے نزدیک اس اصولی مسئلہ میں عموم کے اندر عدم تجاوز از مراد متکلم کی قید معتبر ہے، گو مصنفین نے تصریحاً اس کا ذکر نہیں کیا۔ ایک وعظ میں میں نے یہ مضمون بیان کیا تھا اس میں مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ بھی تھے بعد وعظ کے شاہ صاحب سے کسی نے ایک مسئلہ دریافت کیا تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ تم نے سنا نہیں کہ ابھی وعظ میں اس نے (میری طرف اشارہ کرکے) مسئلہ بیان کیا ہے کہ اس قاعدہ میں یہ قید بھی ملحوظ ہے فرمایا کہ مجھے اس سے ------------------------------ ۱؎ العاقلات الغافلات ملحقہ حقوق الزوجین ص ۳۰۷ وص۳۰۸