فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے مکان پر تشریف لے جاتے تو مکان میں رہنے کے وقت کو تین حصوں پر تقسیم فرماتے، ایک حصہ اللہ عزوجل (کی عبادت) کے لیے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں (کے حقوق ادا کرنے) کے لیے اورایک حصہ اپنی ذات خاص کے لیے، پھر اپنے خاص حصہ کو اپنے اور لوگوں کے درمیان اس طرح پر تقسیمفرماتے کہ اس حصہ (کے برکات) کو اپنے خاص اصحاب کے ذریعہ سے عام لوگوں تک پہنچاتے (یعنی اس حصہ میں خاص حضرات کو استفادہ کے لیے اجازت تھی پھر وہ عام لوگوں تک ان علوم کو پہنچاتے)۔۱؎ما انا علیہ واصحابی کا مطلب فرمایا: ’’ما‘‘ کے تحت دو قسم کے امور داخل ہیں ایک فعلی یعنی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور صحابہ کا تعامل رہا، اور ایک قولی یعنی جس پر آپ کا عمل تو ثابت نہیں لیکن ان کی اجازت صراحۃً آپ نے دی ہے یا کسی کلمہ کے تحت میں داخل ہے بشرطیکہ کوئی شرعی دلیل حرمت کی موجود نہ ہو، پس اس اصل پر ہندوستانی جوتہ تو اجازت کے تحت میں آسکتا ہے، بخلاف انگریزی جوتہ کے کہ اس میں تشبہ بالکفار حرمت کی علامت موجود ہے۔۲؎من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ کی تشریح اور وسائل ومقاصد کی تفصیل مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ نے فرمایا کہ من أحدث فی أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد (اس ) حدیث میں جس چیز کی ممانعت فرمائی ہے وہ احداث فی الدین ہے، لیکن دین کے احکام کو بروئے کار لانے کے لئے جن ذرائع ووسائل کی ضرورت پیش آئے، اس کا قرآن وحدیث میں منصوص ہونا ضروری نہیں وہ ہرزمانہ ------------------------------ ۱؎ شمائل ترمذی، حیوٰۃ المسلمین ص:۵۴ روح ہشتم ۲؎ انفاس عیسی ص ۳۶۵ج۱