فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
مثال سے وضاحت اللہ تعالیٰ کی اصل صفت تو رحمت ہی ہے اور اصلی کے یہ معنی ہیں کہ جس کا ظہور مقتضیٰ کے ساتھ بھی ہو اور بلا مقتضی کے بھی ہو یہ خاص اصطلاح ہے جو میں نے تفہیم کے لیے اختیار کی ہے ورنہ صفات قدیمہ سب اصلی ہیں مگر حدیث میں رحمت و غضب میں فرق ثابت ہے اس لیے میں اس فرق کو اس عنوان سے جدید اصطلاح کے ساتھ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اصلی صفت تو وہ ہے جو بلا مقتضی بھی ظاہر ہو اور غیر اصلی وہ ہے جو بلا مقتضیٰ ظاہر نہ ہو پس سبقتِ رحمت کے معنی یہ ہیں کہ رحمت کا ظہور تو مقتضیٰ سے بھی ہوتا ہے اور بدون مقتضی کے بھی اور غضب کا ظہور ہمیشہ مقتضی ہی سے ہوتا ہے بدون مقتضی کے نہیں ہوتا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم صفات باری ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی شان ہے کہ آپ میں رحمت کا غلبہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف رحیم فرمایا ہے اور سخت کلامی و سنگ دلی سے آپ کی براء ت کی ہے۔ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔الآیہ۔ پس خدا ہی کی رحمت کے سبب آپ ان کے ساتھ نرم رہے، اور اگر آپ تند خو، سخت طبیعت ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اصلی صفت ہے اور غضب، حدّت (تیزی) آپ کی اصلی صفت نہیں بلکہ کسی عارض و مقتضی کی وجہ سے اس کا ظہور ہوا ہے، اب بتلائیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع آپ کی صفات اصلیہ کا اتباع ہے یا صفات عارضیہ کا؟ یقیناً ہر شخص یہی کہے گا کہ حضور کا اتباع یہی ہے کہ صفات اصلیہ میں آپ کا اتباع