فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
جمال بڑھا ہوا ہے حسن کو دیکھ کر تو ایک گونہ تحیر ہوتا ہے اور جمال کو دیکھ کر کشش ہوتی ہے، اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اجمل کہا جائے ، اور حضرت یوسف علیہ السلام کو احسن کہا جائے تو نہ کسی نص کی مزاحمت ہے اور نہ کسی کی تنقیص ہوتی ہے، یعنی یوں کہاجائے کہ حسن میں حضرت یوسف علیہ السلام سب سے فائق تھے اور جمال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو کیا حرج ہے۔۱؎اجمال واطلاق کا فرق اجمال واطلاق میں فرق کرنا بڑا مشکل ہے اور یہ ایک امر اجتہادی ہے،اجمال کی تفسیر وبیان توظنی دلیل بھی ہوسکتی ہے ،البتہ مطلق کو مقید کرنے کے لئے قطعی میں ظنی دلیل کافی نہیں ،پس مسح رأس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ امام صاحبؒ نے اس کو مجمل سمجھا ہو،اور اس کے بیان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یافعل کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے ،قول تو ملا نہیں آپ کے فعل سے معلوم ہوا کہ آپ نے کبھی صرف ناصیہ یعنی مقدم رأس پر بھی مسح کیا ہے اور وہ ربع رأس کے برابر ہے اور اس سے کم ثابت نہیں ،اس لئے امام صاحب ؒ نے حدیث فعلی کو مجمل کا بیان قراردیا ۔ اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ اقل مہر دس درہم امام صاحبؒ نے اس وجہ سے قرار دیا ہو کہ’’ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ ‘‘کو مجمل قرار دیا ہو اور اس کے بیان کی ضرورت ہوئی ،چنانچہ ایک روایت بیان کی جاتی ہے ’’لامہرا الا عشرۃ دراہم‘‘۔ اگر یوں کہا جائے کہ اس کا بیان ایک حدیث فعلی ہے تو بہتر ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مہر خود مقرر فرمائے ہیں ان میں سب سے کم ام سلمہ ؓ کا مہر ہے جس میں ایک متاع کو مہر قرار دیاگیا تھا، جس کی قیمت دس درہم تھی اور اس سے اقل حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ،اس لئے یہ حدیث فعلی اگر چہ ظنی ہے لیکن مجمل کابیان ہوئی ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ انفاس عیسی ۲؍ ۶۳۲ ۲؎ ملفوظات دعوات عبدیت ۱۳۲ج۱۹