فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
دینے سے سلیم الفطرۃ کی نظر میں اور بھی شدت منع کی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس وقت اس کی ایسی مثال ہوگی جیسے ایک شخص آٹے کی نسبت یہ کہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے اس سے سننے والابہت ڈرجائے گا اور کبھی اس کے کھانے کا قصد نہ کرے گا، بخلاف اس صورت کے کہ وہ زہر کی مقدار بھی بیان کردے کہ مثلاً تین ماشہ زہر اس میں ملا ہوا ہے کیونکہ اس صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس میں بہت ساآٹا ملاکر استعمال کرے جس سے زہر کا اثر مغلوب اور معدوم ہوجائے، اور مقدار بیان نہ کرنے کی صور ت میں کسی طرح اس کے استعمال کرنے کی جرأت نہیں ہوسکتی، اسی طرح اگریہاں درجہ کراہت کی تحدید بیان ہوئی ہوتی تو کسی وقت میں ان کی جرأت ہوناممکن تھی مثلاً جیسے وہاں زہر کی مقدار معلوم ہونے سے بہت ساآٹا ملاکر استعمال کی جرأت ہوسکتی تھی اسی طرح یہاں بھی بہت سے اعمال صالحہ کے انضمام سے ایسی جرأت ہوجاتی لیکن جب درجہ کراہت کی تصریح نہیں ہے توکسی وقت میں بھی ان پر جرأت نہیں ہوسکتی، یہ اوربات ہے کہ ان ممنوعات کے سارے افراد کا یکسا ں حکم نہ ہونا دوسری دلیلوں سے معلوم ہوچکا ہے ،لیکن اس حدیث کا لفظ فی نفسہٖ اس وجہ سے بہت سخت ہے کہ اس میں درجہ کراہت کی تحدید نہیں ہے ،خوف رکھنے والے کے لئے تویہ لفظ ایسا ہی ہے جیسا کہ حرام اور(گناہ) کبیرہ ،جیسا کہ میں نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ ۱؎ایک اہم قاعدہ فقہیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ عبادت میں رات بھر کھڑے رہتے تھے حتی کہ قدم مبارک ورم کر آتے تھے حالانکہ حق تعالی نے آپ کی شان میں یہ فرمایا: لِیَغْفِرَلکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأخَّرَ کہ ہم نے آپ کے اگلے پچھلے ذنوب سب بخش دئیے۔ ------------------------------ ۱؎ السوال ملحقہ اصلاح اعمال ص:۳۶۶