فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
مذکورہ جواب پر کچھ اشکالات اور ان کے جوابات السلام علیکم ورحمۃ اللہ درمختار سے جو تعریفِ بدعت بالفاظ(ہی اعتقاد خلاف المعروف الخ) نقل فرمائی گئی ہے تولفظ اعتقاد اس عبارت میں علی الاطلاق ہے ،اعم ازیں کہ کسی مجتہد کا اعتقاد ہو یاغیر مجتہد کا ،پھر اس کا ماخذ صاحب درمختار نے اس حدیث کوبتلایا ہے کہ (من احدث فی امر نا ہٰذاالخ)اس میں بھی لفظ من اعم ہے یعنی مجتہد یاغیر مجتہد کی کچھ تخصیص نہیں ہے ۔ پس آپ نے آگے چل کر رائے غیر مجتہدین کو جو مصداق مفہوم بدعت کا قرار دیا ہے ،اور رائے مجتہدین کو شرعاً غیر مذموم بتلایا ہے اور مصداقِ مفہوم بدعت سے خارج کیا ہے ،یہ امر عبارت درمختار سے یاعبارت حدیث مذکور سے کس طور سے اخذ فرمایا ہے؟ پھر بدعت کی دوقسمیں حقیقیہ وصوریہ تحریر فرماکر قسم ثانی کو حکم کلی (کل بدعۃ ضلالۃ) سے مستثنیٰ فرمادیا ہے ،تویہ معلوم ہونا چاہئے کہ : بدعت صوریہ کی تعریف کیا ہے ؟پھر ایک ایک مثال اقسامِ بدعت کی معلوم ہونا چاہئے کہ سیّئہ وحسنہ واقسام بدعت کے جو مشہور ہوئے ہیں آیا یہ اقسام اسی صوریہ وحقیقیہ کی تحت میں داخل ہیں یاعلیحدہ علیحدہ ہیں ؟تو ان کی تعریف ومثال کیا ہے ؟ یہ امر بھی ضرور ی الاستفسار ہے کہ (من احدث فی امرنا ہٰذا الخ) میں مشارالیہ کون ہے ؟باقی یہ یقینی ہے کہ جو اس کا مشار الیہ ہوگا وہ عین ثواب ضرور ہوگا، اوررائے مجتہدین خطا پر بھی ہوا کرتی ہے پس وہ اس کے مشارالیہ کو کس طرح شامل ہوگا ؟ اور ہر گاہ شامل نہ ہوگی تومصداق مفہوم بدعت سے کس طرح خارج ہوگی ؟پھر شرعاً تعریف مجتہدبھی معلوم ہونا چاہئے جس کی رائے کو آپ نے غیر مذموم بتلایا ہے ؟