فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
تعاملِ امت بھی اجماع کے ساتھ ملحق ہے قال فی نور الانوار وتعامل الناس ملحق بالاجماع وفیہ ثم اجماع من بعدہم ای بعد الصحابۃ من اہل کل عصر، اس سے معلوم ہوا کہ تعامل بھی مثل اجماع کے کسی عصر کے ساتھ خاص نہیں البتہ جو اجماع کا رکن ہے وہی اس میں بھی ہونا ضروری ہے یعنی اس وقت کے علماء اس پر نکیر نہ کرتے ہوں ، اسی طرح فقہاء نے بہت سے نئے جزئیات کے جواز پرتعامل سے احتجاج کیا ہے۔ کما فی الہدایۃ فی البیع الفاسد ومن اشتری نعلا علی ان یحذوہ البائع الی قولہ یجوز للتعامل فیہ فصار کصبغ الثوب وللتعامل جوزنا الاستصناع وفیہافی التسلیم ان استصنع الی قولہ للاجماع الثابت بالتعامل۔پس اس بناء پر کتاب چھپوانا استصناع میں داخل ہوگا۔ واللہ اعلم۔۱؎اجماع امت کی ایک مثال بیس رکعت تراویح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر جماعت کے ساتھ پڑھے جاتے تھے یہ روایت مؤطا امام مالک میں گومنقطع ہے مگر عملاً متواتر ہے ، امت کے عمل نے اس کو متواتر کردیا ہے بس عمل کے لئے اتنا کافی ہے ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ عملاً تراویح کی بیس رکعتیں پڑھتے تھے ۔۲؎٭ ------------------------------ ٭ عن یزیدبن رومان انہ‘ قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضمان بثلاث وعشرین رکعۃ(مؤطا مالک)ولما کانت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہم علیٰ امام واحد فصلیٰ بہم عشرین رکعۃ فلم یعارض فی ذالک احد فکان اجماعا من عصر عمر رضی اللہ عنہ الیٰ یومنا ہٰذا(فقہ العبادات علی المذاہب الاربعہ للشیخ محمد روّاس قلعہ جی ص۱۸۷ ۱؎ امداد الفتاوی ۳؍۳۲ ۲؎ تقلیل المنام بصورۃ القیام ص۵۴