فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اوردوسرے طریق کانام خود قرآن ہی میں اعتبار آیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے فَاعْتَبِرُوْا یا أوْلِیْ الاَبْصَار، اس سے اوپر بنی نضیر کے جلاوطن کئے جانے کا قصہ مذکور ہے جس کے بیان کرنے کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اے بصیرت والو! اس سے عبرت حاصل کرو، یعنی اگر تم ایسی حرکت کروگے جوان لوگوں نے کی ہے تو اپنے واسطے بھی اس عذاب کو تیار سمجھو اور یہی تو علم اعتبار ہے کہ دو چیزوں میں مشابہت ہو تو ایک نظیر سے دوسری نظیر کا استحضار کیا جائے اور یہی عبرت حاصل کرنے کے معنی ہیں کہ دوسرے کی حالت کو اپنے اوپر منطبق کیا جائے کہ اگر ہم نے اس کے جیسے اعمال کئے تو ہمارا بھی وہی حال ہوگا جو اس کا ہوا ہے۔۱؎صوری قیاس اوراس کا حکم غیر مدلول قرآنی کو مدلول قرآنی پر کسی مناسبت ومشابہت سے قیاس کرلیا جائے یہ حقیقی قیاس نہیں محض صورت قیاس کی ہے اس لئے قیاس کے احکام ثابت نہیں ، یہ قیاس حجت شرعیہ نہیں ، اس لئے اس قیاس سے اس حکم کو نص کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں حجت شرعیہ صرف قیاس فقہی ہے۔۲؎صوری قیاس کے اقسام تفاول، اعتبار، تعبیر پھر آگے ان میں ایک تفصیل ہے جس سے دونوں کا درجہ جدا جدا ہوجاتا ہے وہ یہ کہ اگرغیر مدلول قرآنی مقصود دینی ہے تو اس (صوری) قیاس کا درجہ علم اعتبار ہے اور وہ معمول امت کا رہا ہے بشرطیکہ اس کو درجہ تفسیر تک نہ پہنچایا جائے، اوراگر وہ غیر مدلول قرآنی مقصود دنیوی ہے تو اس قیاس کا درجہ فال متعارف یا شاعری سے زیادہ نہیں ، گو مقیس صحیح ہی ہو یا اتفاق سے صحیح ہوجائے پس جو درجہ اس شاعری یا اس تفاول کا ہے یہی درجہ اس قیاس متکلم فیہ کا ہے۔ ------------------------------ ۱؎ حقوق الزوجین ص ۵۱،غایۃ النجاح فی آیۃ النکاح ۲؎ بوادرالنوادر ۲؍ ۳۹۴