فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
تک اس لڑکی کا فعل اس حد کے اندر تھا اس لئے اجازت دی ،جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو اتفاق سے اس وقت وہ لڑکی تغنّی مباح میں اس حد سے آگے پہونچنے کو تھی حتی کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی نہ پہنچتے تب بھی حضور اس وقت خود منع فرمادیتے،غرض مباحات کی ہر کثرت مباح نہیں ہوتی، جیسے بھنا گوشت کھانا طبعاً ممنوع نہیں بلکہ مفید ہے لیکن اگر قوت معدہ سے زیادہ اس کی کثر ت کریں تو تخمہ (بدہضمی) ہوجائے ۔ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ اب یہاں ایک مسئلہ پر تنبیہ ضروری ہے وہ یہ کہ اس حدیث تغنی سے بعض اہل سماع تمسک کرتے ہیں اور قوالی کو فعل مسنون قراردیتے ہیں ،لیکن ان کا یہ تمسک صحیح نہیں کیونکہ اول تو اس تغنی میں اور قوالی میں بہت بڑا فرق ہے کہ یہاں گھر کی نابالغ لڑکی، ناواقف فن ،بلااہتمام ،بلا تصنع، بلاسازوسامان وغیرہ کے ہے ،دوسرے اگر کسی خاص مقتضی کی بناء پر حضورسے احیاناً کوئی فعل صادر ہواہو تو اس سے اس فعل کا مسنون ہونا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ فعل مسنون اسی کو کہیں گے جو حضور کی عادتِ غالبہ ہو ،اس فرق کے معلوم نہ ہونے سے بہت لوگ غلطیاں کرتے ہیں اسی غلطی کے رفع کرنے کے واسطے میں نے ایک وعظ کہا تھا جس کانام’’ الغالب للطالب‘‘ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اپنے یااپنے بزرگوں کے اخلاق وعادات کی حمایت میں جوبعض لوگ حضور کے افعال واقوال سے علی الاطلاق تمسک کرتے ہیں اور ان اقوال کے سنت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ حضور کی سنت وہ ہے جو حضورکی غالب عادت ہو مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر غصہ بھی کیا ہے تواگر کوئی ایسا شخص ہو جو نک چڑھا ہو اور کثر ت سے غصہ کرتا ہو وہ اس سے تمسک نہیں کرسکتا کیونکہ حضور کی عادت شریف کثر ت سے عضہ کرنے کی نہ تھی، اس سے یہی کہا جائے گا کہ بھائی تمہارے غصہ میں اور حضور کے غصہ میں یہ فرق ہے کہ حضور کی عادت غصہ کی غالب نہ تھی اور تم پر غالب ہے لہٰذایہ سنت نہیں ۔