فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
صرف یہ بتلاتا ہے کہ یہ امر قانون کے موافق ہے یا خلاف ہے اس سے زیادہ وکیل کا کام کچھ بھی نہیں ، مثلا یہ کہ اس سے قانون کی لِمْ (علت اور وجہ) پوچھی جائے ،اسی طرح علماء کا اس سے زیادہ کچھ کام نہیں کہ جس بات کے متعلق شبہ ہو کہ یہ قانون کے خلاف تو نہیں اس کو علماء سے پوچھ لو وہ قانون الٰہی کے موافق یا مخالف ہونے کو واضح کردیں گے، ان کایہ کام نہیں ہے کہ اس قانون کی علت بھی بتلادیں ، نہ ان کا یہ کام ہے کہ تمام سائنس کی تحقیق کو قرآن میں داخل کردیں ، نہ ان کا یہ کام ہے کہ قومی کا موں میں حصہ لیں نہ یہ کہ اس کے لئے چندہ کریں ، ان کا کا م صرف قانون الٰہی کو سمجھنا ہے اور ان سے یہی پوچھنا بھی چاہئے کہ یہ بات قانون الٰہی کے خلاف تو نہیں ہے۔۱؎حُکّام اور علماء کی ذمہ داری سلاطین (حکام) سے تو میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے حدود میں کوئی حکم اس وقت تک نافذ نہ کریں جب تک اہل حق علماء سے استفتاء نہ کرلیں ۔ اور علماء سے یہ کہتا ہوں کہ وہ نفاذ کے بعد اس پر کار بند ہوں ، (یعنی عمل کریں اور تائید کریں ) اگر یہ دونوں کام اس طرح جمع ہوجائیں تو مسلمانوں کی فلاح وبہبودی کی صورت نکل آئے اور ان کی ڈوبتی ہوئی کشتی ساحل پرآلگے، ورنہ اللہ ہی حافظ ہے۔۲؎علماء قانون ساز نہیں قانون داں ہیں ہم احکام (وقوانین کے) واضع نہیں بلکہ عالم قانون ہیں (یعنی قانون ساز نہیں بلکہ قانون کے جاننے اور بتلانے والے ہیں ) جس میں علت کا جاننا ضروری نہیں ۔ جیسے وکلاء کہ قانون کے جاننے والے ہوتے ہیں ان کو قانون کی علت معلوم ہونا ضروری نہیں ، نہ وہ اس کا دعوی کرتے ہیں تواگر ان سے کوئی قانون کی علت ------------------------------ ۱؎ غایۃ النجاح ملحقۃ التبلیغ: ۱۳؍ ۱۶۹ ۲؎ ملفوظات ۳؍ ۳۲۱، اصلاح المسلمین ص۶ ۵۲