فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
یہ محض انتظامی تدبیریں اور معالجہ ہے اس کے لیے ضروری نہیں کہ کسی نص کتاب و سنت میں وارد ہو، اگر کوئی نص شرعی بیان بھی کردی جائے تو وہ محض تبرع ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے لیے تو اصول شرعیہ اور تعامل سلف سے ثبوت ضروری ہے جو چیز قرآن و سنت اور تعامل صحابہ و تابعین سے ثابت نہ ہو، احکام میں اس کا اختیار کرنا بدعت کہلاتا ہے، لیکن احکام شرعیہ پر عمل کرنے سے جو طبعی موانع انسان کو پیش آتے ہیں ، ان موانع کے ازالہ کے لیے جو تدبیریں کی جائیں وہ ایک معالجہ ہے ان تدبیروں کا قرآن وسنت سے ثابت ہونا ضروری نہیں جس طرح جسمانی معالجہ کا حال ہے کہ مریض کے لیے جو کوئی حکیم یا ڈاکٹر کوئی دواء، پرہیز ،غذا وغیرہ مخصوص کردیتاہے کوئی یہ پوچھے کہ یہ کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے کہ یہی دواء استعمال کی جائے، ظاہر ہے کہ یہ سوال بے جا اور ناواقفیت پر مبنی ہے ، قرآن وسنت سے اس چیز کا حلال ہونا ثابت ہو یہ تو ضروری ہے آگے جتنی قیدیں ، شرطیں کوئی ڈاکٹر حکیم لگاتا ہے اس کی پابندی کسی آیت و حدیث سے ثابت ہونا ضروری نہیں ، اس کا مدار تجربہ پر ہے۔صوفیاء کے مجوزہ اذکار و اشغال کب بدعت ہوجائیں گے؟ ہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر کوئی شخص حکیم ڈاکٹر کی بتائی ہوئی تدبیر اور اس کی لگائی ہوئی قید و شرط کو عبادت سمجھ کر کرے تو یہی بدعت ہوجائے گی، معالجہ نفس کا ضروری ہونا تو قرآن وسنت اور تعامل صحابہؓ و تابعین سے ثابت ہے وہ عبادت اور ثواب ہے لیکن اس کی کسی خاص صورت کو عبادت وثواب کا مدار قرار دینا کہ جو نہ کرے اس کو برا سمجھے،یہ اس کو بدعت کی حد میں داخل کردیتا ہے، خوب سمجھ لیا جائے۔ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص:۱۹۳