فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
شانے (کاندھے) ہلاتے ہوئے اکڑکر طواف کریں تاکہ ان کو مسلمانوں کی قوت کا مشاہدہ ہو، اب وہ سبب تو نہیں لیکن مامور بہ یعنی طواف میں رمل کا حکم اپنے حال پر باقی ہے، یہ امر غیر مدرک بالعقل ہے اور جو امر خلاف قیاس (خلاف عقل ) ہوتا ہے اس کے لئے نقل اور وحی کی ضرورت ہوتی ہے،اب ہم پوچھتے ہیں کہ عید میلاد النبی کا سبب کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ حضور کی ولادت کی تاریخ ہونا ہے، اب ہم پوچھتے ہیں کہ وہ تاریخ گذر گئی یا بار بار آتی ہے؟ ظاہر ہے کہ (خاص وہ تاریخ جس میں آپ کی پیدائش ہوئی تھی گذر گئی) ختم ہوگئی۔ کیونکہ اب جو بارہ ربیع الاول کی تاریخ آتی ہے وہ اس خاص یوم ولادت کے مثل (اور مشابہ) ہوتی ہے، نہ کہ بعینہ (وہی تاریخ کیونکہ وہ وقت گذر چکا) اور یہ تو بالکل ظاہر بات ہے (اس میں دلیل کی ضرورت نہیں ) پس مثل (اور مشابہ) کے لئے وہی حکم ثابت ہونا کسی نقلی (اور شرعی) دلیل یعنی وحی کا محتاج ہوگا غیر مدرک بالعقل ہونے کی وجہ سے، اس میں قیاس حجت نہیں ہوگا لیکن یہاں ایک اور شبہ ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کا روزہ رکھا ہے، سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روزہ تو خود منقول ہے، اور آپ نے وحی سے روزہ رکھا ہے اس لئے اس پر قیاس نہیں ہوسکتا۔۱؎کبھی سبب کو علت کے قائم مقام کرکے اسی پر حکم دائر کیا جاتا ہے فقہاء نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ بعض احکام میں سببِ حکم کو علتِ حکم کے قائم مقام کردیتے ہیں ، مثلاً انہوں نے غور کیا کہ سفر میں قصر کی علت کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ قصرکی علت مشقت ہے، لیکن مشقت کی حقیقت معلوم کرنا بعض جگہ دشوار تھا اس لئے اس کے سبب یعنی سفر کو علت یعنی مشقت کے قائم مقام کردیا، مگر یہ علت سمجھنا یا سبب کو علت کی جگہ رکھنا یہ کام فقہاء ہی کا تھا،فقہاء کی تمیز کو تودیکھئے کہ کتنی بڑی بات نکالی اور پھر غلطی سے محفوظ رہے دوسرا ہوتا اور ایسی حکمت نکالتا، اسے غلطی سے بچنا ------------------------------ ۱؎ وعظ السرور ص ۱۵۵