فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ایک علم جو بوجہ انتساب الی الصلحاء اس (تفاول و شاعری) سے بھی اشرف ہے یعنی تعبیر رؤیا اس کا مدار بھی ایسے ہی مناسبات پر ہے اس کو بھی نہ کوئی قابل تحصیل سمجھتا ہے اور نہ کسی درجہ میں اس کو حجت سمجھتا ہے۔۱؎علم اعتبار علم تعبیر سے اشرف ہے علم اعتبار علم تعبیر سے بھی اشرف ہے اور اشرف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تعبیر سے تو فقط احکام تکوینیہ پر استدلال کیا جاتا ہے اور علم اعتبار سے خالص احکام شرعیہ پر استدلال کیا جاتا ہے سو اس حساب سے علم اعتبار ان قیاسات مبحوث عنہا سے دو درجہ اشرف ہوا۔۲؎علم اعتبار کا شرعی درجہ اور اس کا حکم ایسے استنباطات کا درجہ فقہی قیاس سے بھی کم ہے، نہ وہ اشارات یقینی ہیں نہ ان سے تعبیر مقصود ہے خود وہ علم بھی قابل تحصیل نہیں بلکہ بلا تحصیل ہی جس کے ذہن کو ان مناسبات سے مناسبت ہوگی وہ ایسے استدلالات پرقادر ہوگا گو علم وفضل میں کوئی معتدبہ درجہ نہ رکھتا ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ فقہی قیاس میں تو غیر منصوص کو منصوص کے ساتھ لاحق کرکے اس پر حکم کرتے ہیں اور وہ بھی جہاں مستقل دلیل نہ ہو، یہ غیر منصوص بھی علت کے واسطے سے نص کا مدلول ہوتا ہے اور قیاس محض مظہر ہے۔ اورصوفیہ کے قیاس (علم اعتبار ) اگر دلیل سے ثابت نہ ہوں تو ان نصوص سے ثابت ہی نہیں ہوتے، یہ اعتبار محض ایک تشبیہ کا درجہ ہے جس میں وجہ تشبیہ مؤثر فی الحکم نہیں ہوتی۔ استدلال تو مفہوم لغوی سے ہوتا ہے ان طرق کے ساتھ جو اہل معانی واصول نے بیان کئے ہیں اوراعتبار تشبہ واشارہ کے طور پر ہوتا ہے۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ بوادر النوادر ۲؍ ۳۹۶ ۲؎ بوادرالنوادر ص ۳۹۶ج۲ ۳؎ بوادرالنوادر ص ۳۹۷ج۲ بدائع ص۲۴۰، الفصل للوصل ص ۱۸۲، ملحوظات جدید ملفوظات ص ۱۱۲