فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اور اس پر سب سے زیادہ عمل کیا ہے ابو حنیفہؒ نے کیونکہ ان کا قول ہے کہ حدیث موقوف بھی حجت ہے اور مقدم ہے قیاس پر، حدیث موقوف اس کو کہتے ہیں جس میں صحابی اپنی طرف سے ایک حکم بیان کرے جو مدرک بالرائے ہوسکے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت نہ کرے، اس کو کہا جائے گا کہ یہ صحابی کی رائے ہے سو امام صاحب اس کے سامنے بھی قیاس کو چھوڑ دیتے ہیں اور بعض فقہائے مجتہدین کہتے ہیں ہم رجال و نحن رجال یعنی جب قرآن و حدیث میں اس حکم کے بار ہ میں کوئی تصریح نہیں ہے تو یہ صحابی کا قیاس ہے تو جیسے وہ قیاس کرسکتے ہیں ایسے ہم بھی قیاس کرسکتے ہیں لہٰذا اگر وہ قول ہمارے قیاس کے مطابق ہو تو خیر ورنہ ہم کو اپنے قیاس پر عمل کرنا چاہئے، ان کا قیاس ہمارے اوپر حجت نہیں جیسے کہ عام قاعدہ ہے کہ ایک مجتہد کا قیاس دوسرے پر حجت نہیں ہوتا، مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو سب کے لیے حجت ہے ہی جیسا کہ مسلّم ہے لیکن جس امر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول نہ ہو اور اس میں ضرورت ہو اجتہاد کی تو اس اجتہاد میں صحابی اور ہم برابر ہیں وہ بھی مجتہد ہیں اور ہم بھی اور ایک مجتہد پر دوسرے مجتہد کی تقلید ضروری نہیں ۔امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک مجتہد پر بھی صحابی کی تقلید واجب ہے مگر امام صاحب کا مسلک یہ ہے کہ صحابی کی بھی تقلید مجتہد پر واجب ہے یعنی اس کا اتباع بلا دلیل (اوریہی تقلید کی حقیقت ہے) بلفظ دیگر صحابی کا قول بھی دلیل ہے اور قیاس اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دلیل نہ ہو اور قول صحابی دلیل ہے تو اس صورت میں امام صاحب اپنے قیاس کو چھوڑدیتے ہیں ۔ اور امام صاحب کے اس مسلک کا ماخذ مَااَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ کے ظاہر الفاظ ہوسکتے ہیں یعنی وہ میر ے اور میرے صحابہ کے مسلک کے متبع ہیں تو صحابی کا اتباع بھی ضروری ہوا، اتباع مرادف ہے ترجمہ تقلید کا، تو ثابت ہوا کہ تقلید صحابی کی بھی